Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

فیٹ اکمپلی؛ ایک ہزار سال بعد بحث کیوں؟

AboutThe following document is an urdu version of the article, "Fate Accompli; Why Argue After a Millenium". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [a_morningglory@hotmail.com]

 

ماضی ماضی ہے۔ جیسا کہ فرانسی بولتے ہیں "فیٹ اکمپلی"، معنٰی، جو ہو گیا سو ہو گیا، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ماضی پر لڑنے یا بحث کرنے کا کیا فائدہ؟ ابو بکر نے فاطمہ (ع) کو انکا حق نہیں دیا۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسے اس کی سزا ملے گی۔ ایسی باتیں جنھیں بیتے ہوئے چودہ سو سال گزر گئے، ان پر تبصرہ کرنے سے کیا حاصل وصول؟ ہم ہر طرف، ہر گھڑی، اپنے ملک میں فحاشی اور غربت کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ شیعاء سنی مباحثے  اس کو کم یا ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے، اس لئے یہ صرف وقت کا زیاں ہے۔

 

یہ مضمون ایک عاجزانہ کوشش ہے، عام طور پر پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کی صفائی کرنے اور پاکستان میں حالیہ سیاسی پریشانی کی واضح تصویر پیش کرنے کی، اس صورتحال کا ماضی سے موازنہ کرنے کی، خاص طور پر مولا علی کے دور سے، یہ واضح کرنے کی کہ اس ویبسائٹ کا مقصد کیا ہے اور یہ کس طرح مولیوں کی اندھی پیروی کرنے سے مختلف ہے اور اسے بیکار اور وقت کا زیاں کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 

سب سے پہلے، میرے خلاف اٹھائے گئے نقاط  مکمل زیاں ہیں۔ کیونکہ وہ ایسی بات کے لئے ہیں جس میں میرا پہلے سے ہی اعتقاد ہے، "اعمال کی اہمیت"۔ پر یہ تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اعمال کا انحصار کس پر ہے، " ایمان کی اہمیت"۔ آپ دنیا و سماج کے دئے گئے انصاف کے پیمانے اور اخلاقی اوصاف حاصل کرنے کے لئے ایمان کو فراموش کرنے کو تیار ہیں۔ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ اوصاف ایمان کی اصلاح کے بغیر حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ اور کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہر مسئلے کا حل بیان نہیں کرتا؟ اس بات کی مزید وضاحت آگے کی جائے گی۔

 

اپنے نمونہء عمل حضرت علی (ع) کی طرف واپس آتے ہیں۔ شیعاء انکی پیروی کرتے ہیں۔ اسلئے وہ شیعاء کہلاتے ہیں۔ سنی کے نزدیک تمام اصحاب ستارے ہیں، اسلئے کسی کی بھی پیروی کرنا قابل قدر ہے۔ تو پھر علی کیوں نہیں؟ لہٰذا علی (ع)  کے نقش قدم پر چلنے پر سب متفق ہیں۔

 

 مولا علی (ع) نے عمر کے بعد خلیفہ کا عہدہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ شیخین کی سنتوں پر نہیں چلنا چاہتے تھے، جسکا مطلب ہے کہ وہ انکے طرز عمل سے سحمت نہیں تھے! معاویہ شام کا گورنر تھا، سترہ سال کے لئے اور اسے عمر کے دور میں چنا گیا تھا۔ کیا معاویہ نے عوام کی دولت کے ساتھ ہیر پھیر تب نہیں کی؟ تو پھر علی (ع) کیسے چپ رہے؟ کیوں علی (ع) نے معاویہ کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی، جب عمر اقتدار میں تھا، جب عثمان  اقتدار میں تھا؟

 

علی (ع) نے معاویہ سے صرف تب ہی جنگ کیوں کی جب وہ خود اقتدار میں آئے؟ میرا خیال ہے کہ جواب آپکے سامنے ہے۔ جب تک آپکو عوام اپنا سرپرست نہیں منتخب کرتی، آپ حکومت کو سدھارنے کا ٹھیکا نہیں لے سکتے۔ 

 

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور میں پھر دہرا رہا ہوں کہ اگر مولا علی(ع) کو عثمان کے بعد عوام نے خلافت نہ دی ہوتی تو سفین کبھی نہ ہوئی ہوتی۔ خاموشی ہی انکا طریقہ ہوتا اور وہ اسی میں زندگی گزار دیتے۔ 

 

امام حسن (ع) نے معاویہ کو خلیفہ رہنے دیا۔ انھوں نے اسی بد چلن آدمی کو حکومت کرنے دی جس سے انکے والد نے تب تک جنگ کی جب تک کہ انکو شہید نہیں کر دیا گیا! کیا امام حسن (ع) نے ایک بد چلن آدمی کے سیاسی مقام کو مضبوط کر کے کوئی سنگین گناہ کر دیا؟ آپکی سوچ کے مطابق، یقیناً کیا  

 

آپ یہ سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی بہتری کے لئے، مسلمانوں اور اہل البیعت کی سلامتی کے لئے، امام حسن(ع) نے معاویہ کے ساتھ معاہدہ کیا، اور اس معاہدے کے لئے انھوں نے خود کو خلافت سے دست بردار کر لیا۔ رسول اللہ (ص) نے انہی لوگوں کے ساتھ، جن سے وہ چھ سالوں سے جنگ کر رہے تھے، صلح حدیبیہ کی، اور عمر کا یہ خیال تھا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ یہ نقطہ صرف اس لئے بیان کیا گیا کہ امام حسن (ع) کا معاویہ کو خلافت پر فائز رہنے دینا غلطی  صرف ان کے لئے ہو سکتی ہے جن کی دور اندیشی محدود ہے۔

 

اب وحابیوں کے سر کے تاج کے سب سے انمول ہیرے کی طرف آتے ہیں۔ یزید (لعیین) کی طرف۔ کیا امام حسین (ع) نے خود کو بر سغیر جانے دینے کی پیش کش نہیں کی تھی؟ کیا یہ یہ ثابت نہیں کرتا کہ امام (ع) لڑنا نہیں چاہتے تھے، اور اگر انھیں موقع دیا جاتا تو وہ اس خطے سے ہی چلے جاتے نہ ہی لڑتے، نہ ہی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔ امام (ع) یزید کو صحیح سربراہ نہیں مانتے۔ مگر یزید سربراہ ہی رہتا اگر وہ امام (ع) کو یہ آزادی دے دیتا کہ وہ عرب میں رہ سکیں مگر اس کی بیعت نہ لیں۔ امام حسین (ع) کی جدوجہد لوگوں (کوفے والوں) کے اسرار سے شروع ہوئی۔ اور جیسے ہی وہ پیچھے ہٹ گئے، امام (ع) نے خطے سے چلے جانا بیتر سمجھا۔ یہ بات دنیاوی سچائی پر کی جا رہی ہے نہ کہ کربلا کی روحانی پہلو پر۔ اگر کوفیٰ کے لوگ امام حسین (ع) کو دعوت نا دیتے تو کیا امام حسین(ع) زبردستی کوفیٰ جاتے؟ 

 

تو جب امام علی (ع) خاموش رہے، جب تک کہ انھیں عوام نے اپنا سربراہ مقرر نہیں کیا، تو آپ، جو انکی پیروی کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں، آپ کیوں حکومت کو بدلنا، اسکو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں؟ جب کہ آپ کسی بھی شکل میں حکومت کا حصہ نہیں ہیں جسکا مطلب ہے کہ نہ ہی آپکے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے نہ اختیار۔ 

 

جب آپ کو لیڈر بنایا جاتا ہے تو آپ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ سماجی انصاف، جیسے آپ دیکھتے ہیں، ویسے ہی لاگو کر سکیں۔ تب تک، جب تک کہ آپکو لوگ چنیں، آپکا کام ہے کہ جڑوں سے شروع کریں، سماج کی بنیادوں کو مستحکم کریں، جس بھی طرح کر سکیں۔ اپنے آپ کو سدھاریں، اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی مدد کریں، اپنے گھر والوں کی اپنے پڑوسیوں کی، کیونکہ یہ ہی وہ اجزاء ہیں جن سے سماج وجود میں آتا ہے۔ اور اسی سماج سے حکومت بنتی ہے۔

 

مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ آپ یہ دیکھنے میں ناکام رہے کہ میری جدوجہد کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ پہلی بات یہ کہ آپ علی (ع) کو اپنا نمونہء عمل مانتے ہیں! لوگ نہیں مانتے۔ لوگ جو ابو بکر، عمر، عثمان اور معاویہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں، آپ ان سے کیا امید رکھتے ہیں۔

 

خالد بن ولید ایک بہترین سپہ سالار تو تھا مگر ایک برا مسلمان تھا۔ شاید اسی لئے، حکومتیں، آج بھی اور ماظی میں بھی، اچھی سڑکیں اور نالے تو بنا لیتیں ہیں، مگر اور وہ تمام کام کرتیں ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاھئیں۔  

 

 ابو بکر ملک کا سربراہ تھا۔ اسی لئے اسے یہ حق تھا کہ کوئی بھی زمین کسی کے بھی نام کر دے اور کوئی بھی کسی سے بھی چھین لے۔ فدّک یاد ہے؟ شاید یہ ہی آج کے حکمران بھی کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنا نمونہء عمل مانتے ہیں۔

 

عثمان نے عوام کا پیسہ لوٹا۔ سنی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ انھیں، صحابی اور نام نہال مسلمانوں  نے ان ہی کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ تو پھر آپ کیوں ایسے لوگوں سے شکایت کرتے ہیں جو کہ انکی خلافت کو ایک مثال سمجھتے ہیں اور انکے نقش قدم پر چلتے ہیں۔

 

عمر ایک بہت سخت حکمران تھا۔ اس نے اسلام نافز کیا، تلوار کی نوک پر۔ تو ایسے لوگوں سے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے جو کہ انھیں اپنا پیشوا مانتے ہیں، اور گرجہ گھروں کو تباہ کر کر، ان سب کو مساجد میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی ایجاد کردہ شریعت کو ہم سب پر مسلط کر سکیں۔  

 

جو کوئی یزید کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ الہہ استعمال کر سکتا ہے اور اس کے باوجود اس کے ہزاروں پیروی کرنے والے ہیں، تو ایسے لوگوں سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟ قرآن اور نماز پڑھو اور پھر وہ سب کرو جو کہ یزید (لعیین) کرتا تھا۔ 

 

مقصد یہ نہیں ہے کہ ماضی کی باتیں بار بار دہرا کر لوگوں کو گالیاں دی جایئں اور وقت ضائع کیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ سچے لوگ، حقیقی نمونہء عمل کون اور کیوں ہیں۔ کیونکہ جب تک آپ یہ ہی نہیں جانیں گے کہ اصل پیروی کرنے کے حقدار کون ہیں تو انکی پیروی کیسے کریں گے۔

 

یہ ویبسائٹ سنیوں اور وحابیوں کے خلاف بات نہیں کرتی! ہر کسی کی اپنی قبر ہے۔ ہر کسی کی سوچ کو اپنی سوچ کے مطابق تبدیل کردینا، میرے سر کا درد نہیں ہے۔ سارے مضامین کا ایک بڑا حصہ شیعوں سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ بھی پڑھیں اور کھلے ذہن سے سوچیں۔ اگر ایک شخص بھی اپنی سوچ بدل لے، تو میرا مقصد مکمل ہو گیا۔ کیونکہ بلاشبہ، تنہا قطروں سے ہی سمندر وجود میں آتا ہے۔

 

آپ، پاکستان کے دوست، فاطمیوں کے دور سے لڑ کر، اسے پھینک کر، عباسیوں کا دور قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم،  اسکا حصہ بننے کے بجائے، خاموشی سے پیچھے بیٹھ کر تماشا دیکھنا چاہیں گے۔

 

خوش قسمتی سے ہماری امامت کربلا میں ہی ختم نہیں ہوتی۔ امام حسین (ع) کے بعد کے اماموں نے اپنی زندگی قیدوں میں گزاردی مگر ظالم حکمرانوں کے خلاف جنگی تحریکوں کا ساتھ نہیں دیا (مثلاً وہ تحریکیں جو زید، ابن زبیر اور نفس امّارہ، وغیرہ کی طرف سے شروع کی گئی)۔ ہمارے اماموں نے تبلیغ کی، لوگوں کو اپنے کردار سے متاثر کیا اور انکا ایمان مضبوط کیا۔ جب تک عوام اہنی ذہنیت کو نہیں بدلے گی، حکومت نہیں بدل سکتی۔ کیونکہ آخر تو حکومت عوام کے بیچ سے ہی بنتی ہے۔

 

زکٰوۃ اور خمس، غربت کا جواب ہے۔ کیا آپ یہ زبردستی لاگو کر کے، لوگوں کی جیب سے نکال سکتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انکی سوچ کو بدلنے کی کوشش کرکے انکو یہ احساس دلایا جائے کہ اسلام کی حقیقی روح کیا ہے؟  

 

آپ، درحقیقت جمہوریت کے نام پر جاگیردارای کو فروغ دے رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر ایسا نظام کیوں استعمال کیا جائے جو یہ قوم سمجھ ہی نہیں سکتی؟ کیا لوگ پاکستان مسلم لیگ کو شریف خاندان کے بنا ووٹ دیں گی؟ کیا عوام بھٹو خاندان کے بنا پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی؟ اور اگر جسے آپ کہہ رہے ہیں وہ ہی جمہوریت ہے تو کیا بےنظیر کو یہ حق تھا کہ وہ عوام کی مرضی جانے بنا اپنے بیٹے کو پارٹی کا صدر  نامزد کر دے؟ یہ پاکستان کی جاگیردارانہ تہذیب ہے جسے جمہوریت کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ آپ   قبائلی نظام کو فروغ دے رہے ہیں، پس فرق صرف یہ ہے کہ اسکا نام مختلف ہے۔

 

جسے آپ وقت کا زیاں اور بےمقصد سمجھتے ہیں، وہ کوشش، یقیناً، وقت کے امتحان سے سرخرو ہوکر ابھرے گی، تب بھی جب ہر حکومت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اگر ایک بھی شخص اسلام کی جڑوں کو سمجھ کر، انھیں اپنی زندگی کی جڑ بنالے، تو اس ایک شخص کے معاشرے پر اثرات ہمیشہ رہیں گے۔ اور اگر یہ ہی اسلام رسول اللہ (ص) اور انکی آل سے لیا گیا ہو، تو وہ شیعت بن جاتا ہے۔

 

آج کا آدمی بھوکا ہے، دولت کا، طاقت کا۔ غلطی کرنا انسان ہونے کا ثبوت ہے، پر ایک ہی غلطی کو بار بار دہرانا بےوقوفی کا۔ میں نہ ہی مشرف کو حکومت میں لایا تھا، نہ ہی میں نے پاکستان مسلم لیگ(ق) کو ووٹ دیا تھا۔ اور نہ ہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دونگا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں ہم ہی نے چنا، آزمایا، ٹھکرایا اور اس کے باوجود پھر سے انہی کو چن لیا۔.

 

 غریب ہمیشہ، ہر زمانے میں، ہر ملک میں، ہر مذہب میں، ہر فقے میں، پائے گئے ہیں۔ نیچ ، جاہل اور انتہا پسند بھی ہمیشہ، ہر معاشرے میں پائے گئے ہیں۔ جمہوریت انکو ختم نہیں کر سکتی، تعلیم کر سکتی ہے۔ آپ جمہوریت کے ساتھ چلیں، میں تعلیم کے ساتھ چلوں گا۔

 

بدقسمتی سے آپ کو تعلیم ماضی کی بات لگتی ہے، جسے بدلا نہیں جا سکتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ آپکو یہ اندازہ ہو کہ آپ کیا کھو رہے ہیں۔

 

یہاں یہ یاد دلاتا چلوں کہ میں ہر چیز کے دینوی پہلو کو نہیں چھیڑونگا۔ حق بےشک یہ ہی کہ "ایمان، اعمال کے بنا فضول ہے اور اعمال، ایمان کے بنا"۔

 

ایک لادین جو کہ کسی غریب کی مدد کرے، اس مسلمان سے پہت پہتر ہوا جو کہ کسی معصوم کی جان لے لے۔ کیونکہ قتل صرف وہ مسلمان کر سکتا ہے جس میں ایمان ہی نہ ہو، جو یہ سمجھ ہی نہ سکا ہو کہ دین ہے کیا۔ کیا یہ پہتر نہیں ہے کہ لوگوں کو یہ سمجھانے کے بجائے کہ جمہوریت کیا ہے یہ سمجھایا جائے کہ اسلام کیا ہے؟

 

اگر آپ کی نظر میں زکٰوۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ جائز ہے(جیسا کہ ابوبکر نے کیا) تو پھر یقیناً، آپ کو ان لوگوں کے عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا جو خود کو بمب سے اڑا دیتے ہیں، کیونکہ وہ دوسرے لوگوں سے جنگ پر ہوتے ہیں، ان لوگوں سے جو نماز اس طرح نہیں پڑھتے جس طرح وہ چاہتے ہیں، یا جو فلمیں دیکھتے ہیں یا گاڑیاں چلاتے ہیں۔

 

میں دہراتا ہوں کہ جمہوریت غربت کو ختم نہیں کر سکتی، مگر ایک انصاف پسند حکمران اور باانصاف نظام کر سکتا ہے۔ وہ فرد کر سکتا ہے جو یہ سمجھ جائے کہ رسول اللہ (ص) کا پیغام کیا تھا اور امام حسین (ع) اور علی (ع) کی کوششیں کیا تھیں۔  آپ جمہوریت کے ذریعے ایک مکمل عدل پسند معاشرہ کیسے قائم کر سکتے ہیں جب کہ امیدوار اور ووٹر، سب کے سب خود ہی جاہل، منافق، بے انصاف اور ظالم ہیں۔

 

کس کی حکمت عملی اچھی تھی، یہ وقت بتائے گا۔ میری باتیں شیعوں کے لئے نہیں ہیں۔ شیعاء لوگوں کا حساب نہیں لے سکتے کیونکہ یوم آخر پر وہ خود بھی احتساب دینے والوں کی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ میں شیعت اور اسکی بنیادوں کی بات کرتا ہوں۔

 

میں بذات خود ان کے حق میں نہیں ہوں مگر شاید یہ آپکی سوچ کو متاثر کرجایئں اسلئے ذکر کرتا چلوں کہ ایک "شیعا" ایران نے اپنی معیشت مستحکم بنائی ہے، اور یہ ایک "ظالم" امریکہ کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ دوسری طرف، پھر سے ایک "شیعا" حزب اللہ" نے یہودیوں کے خلاف کھڑے ہوکر انکا مقابلہ کرنا شروع کیا ہے۔  بنی امیہ کے خلاف شیعا تحریکوں کو کبھی نہیں سرہایا گیا۔ آپ  تحریک مختار کے بارے میں تو جانتے ہونگے  مگر توابن تحریک   کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہونگے۔ 

 

 پاکستان کے شیعاء مشرف کے اتنے ہی خلاف ہیں جتنے سنی اور وحابی ہیں، اور یہ بےوقوفی ہے۔ شیعاؤں کے ساتھ مسئلا یہ ہے کہ انکی سوچ محدود ہے۔ وہ (متحدہ قومی موومنٹ) کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ یہ ایک شیعاء چیز ہے  , ، وہ بھٹو کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ ان کے گھر پر علم لگا ہے۔ شیعاء قلندروں کو مانتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ میں قلندر علی(ع) سے وابستگی رکھتے ہیں۔۔ ہر شیعاء کو ایران سے محبت ہے کیونکہ اس پر شیعا چھاپ ہے۔ یہ اپنے آپ میں ہی بےوقوفی ہے۔  سیاسی نظریات کو مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہئے۔

 

میں مشرف کی حمایت نہیں کرتا۔ مجھے حق ہے، اور میں جب چاہوں اس حق کا استعمال کر سکتا ہوں کہ ہر وہ خبر پڑھ کر ہنسوں جو کہ ہمارے انہی رہنماؤں کے کی حقیقت کھولتی ہو جو عدلیہ کو آزاد کرنے کے لئے سب سے زیادہ اچھلتے ہیں۔   اگر ہماری عدلیہ غریب کو اسکا حق نہیں دلوا سکتی، جاگیرداروں کے ہاتھوں ظلم سہنے والی عورتوں کو انصاف نہیں دلوا سکتے، مظلوموں کو انکا حق نہیں دلوا سکتی، تو ایسی عدلیہ جوتوں کی مستحق ہے۔ ایسی عدلیہ کو ڈنڈے مارنے چاہیں تاکہ انکی اتنی غیرت جاگ جائے کہ وہ خود ہی نوکری چھوڑ کر، صرف ریلیاں نکالیں اور نعرہ بازی کریں۔

 

اپ کو کیا لگتا ہے، جو کربلہ کو اپنی درو گاہ سمجھتے ہیں، کسی پر ظلم کر سکتے ہیں یا اپنے اپ کو بمبوں سے اڑا سکتے ہیں؟ یہ صرف ان کا کام ہیں جو یزیدیت کے پیروکار ہیں۔

 

اماموں نے ریلیاں نہیں نکالیں یا حکومتوں کے خلاف بغاوت کی تحریخیں نہیں نکالیں۔ اماموں نے لوگوں کی سوچ تبدیل کی، یہ احساس دلایا کہ اسلام ان کو کس طرح کی زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور یہی احساس ہر حکومت کے لئے خطرہ تھا جس کی بنا پر اماموں کو قیدوں میں زہر دیا گیا۔ اج ہم کو اسی احساس کی ضرورت ہے۔

 

ہمیں اج احساس کرنا ہوگا کہ اصل لوگ کون ہیں جن کی پیروی میں ہی اسلام اور انسانیت کی بہتری ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے چودہ سو سال پہلے جانا ہوگا۔ جس کو اپ بحث یا لڑائ سمجھتے ہیں، ہمارے لئے درسگاہ ہے۔

 

یہ مت بھولیں کہ قران کا ادھا حصہ گزری ہوئ قوموں اور نبیوں کے قصے سناتا ہے۔ اپ کے مطابق کیا قران کو بھی فیٹ اکمپلے کردیا جاے؟
 

زمانے کی قسم‘ انسان گھاٹے میں ہے‘ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کئے‘ اور حق کی تاکید کی اور صبر کی تاکید کی۔
 Quran [103:1-3]


حق کیا ہے اور سچے لوگ کون ہیں۔ یہ جاننے کے لئے مباحلہ پڑھئے۔ "عقیدہ" کسے کہتے ہیں؟ ہم سب کلمہ پڑھتے ہیں مگر کیا ہم اللہ پریقین رکھتے ہیں؟ کیا ہم اس کی حفاظت اور اسکی ہدایت پر بھروسہ کرتے ہیں؟ کیا ہم رسول اللہ (ص) کی رسالت پر یقین رکھتے ہیں یا ہم انھیں ایک عام انسان کی طرح مردہ   تصور کرتے ہیں؟ کیا ہم مولٰی علی(ع) کی مولایت پر یقین رکھتے ہیں یا ہم اسے صرف ایک اور تعلیمی تبصرہ سمجھتے ہیں؟ خود سے یہ سب سوال پوچھئے کیونکہ یہ ہی وقت کہ ہمیں انکے جواب تلاش کر کے، اپنے ایمان کی کمزوری تلاش کر کے، اسکا علاج کرنا ہے۔ اگر اب بھی نہیں کرینگے تو شاید حالات ہم سے یہ موقع بھی چھین لیں ۔ 

 

ہر کوئی خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں، اچھے کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سچائی پر چلنے اور صبر کی تاکید کرتے ہیں۔

 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.