Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

مباحلہ؛ جھوٹوں پر لعنت

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 14
: Mubahila, Verse of Purity and Infallibility of the Non-Imams

 

AboutThe following document is an urdu version of the article, "Mubahila; Curse the Liars". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [anicashah@hotmail.com]


رسول (ص) نے خدا کا پیغام اپنی حقیقی حالت میں پہنچانے کے لئے مختلف طریقے کار اپنائے۔۔

 

مگر لوگوں نے اسلام کو ہمیشہ صرف نماز اور روزے کی صورت میں ہی دیکھا ہے۔ اسلام یقیناً اللہ کی مرضی کے آگے ہر لمحہ اپنا سر جھکانا تو ہے پر ہر وقت سجدے میں پڑے رہنا نہیں ہے۔   اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ حلال کمانا، اپنے و  الدین کا احترام کرنا، پڑوسی کے ساتھ نیکی کرنا اور ہر اچھا کام اتنا ہی اسلام کا حصہ ہیں جتنا نماز اور روزہ ۔

 

اسی طرح صرف شرک ہی واحد گناہ نہیں ہے بلکہ چوری کرنا، کسی مظلوم کی جان لینا یا کسی عورت کی عزت لوٹنا بھی گناہ ہی ہیں۔

 

ہم کلمہ میں یہ شہادت دیتے ہیں کہ محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں۔
 

ستارہ جب ٹوٹتا ہے گواہی دیتا ہے۔ کہ تمھارا ساتھی بھٹکا نہیں نہ
بھکا ہے، نہ کہ خواہش سے بولتا ہے۔ یہ ایک وحی ہے جو کی جا رہی ہے
، اسے بڑے قوّت والے نے تعلیم دی ہے
،
Quran [53:1-5]

 
اسلیے یہ ماننا کہ رسول اللہ (ص) کی کہی ہوئی ہر بات اللہ کا حکم ہے، ہمارے دین کی بنیادوں میں سے ہے۔ محمد (ص) کی اہمیت  قرآن کے حساب سے کیا ہے، ایک الگ مضمون میں ہم بتا چکے ہیں۔ ۔

 

میں چار سے زیادہ عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا، مگر محمد (ص) کر سکتے ہیں. اخرکار ایسا فرق کیوں؟ میں نے تو سوچا تھا کہ اسلام میں سب برابر ہیں۔ تو اگر میں چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرسکتا، تو محمد(ص) ایسا کیسے کر سکتے ھیں۔  اگر اس بات کو لیکر میں یے سوچنے لگوں کہ یہ امتیاز محمد (ص) کو اللہ نے نہیں دیا اور انہوں نے خود ہی اسکا دعوٰی کیا ہے تو چاہے میں نے اپنی زندگی میں کتنی ہی نمازیں پڑھی ہون، میری یہ سوچ مجھے اسلام کے دائرے سے باہر لے جائگی

 

نقطہ یہ ہے کہ اسلام نے محمد (ص) اور انکی آل کو امتنازی حیثیت دی ہے۔ اور یہ ماننا کہ  یہ حیثیت رسول (ص) کی ذاتی خواہش اور ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے، مومنوں اور نومسلوں کے لئے امتحان تھا۔ جیسے صرف علی (ع) ہی کیون؟ میں کہا گیا ہے کہ اگر محمد (ص) نے اپنے نواسوں کو جنت کے شہزادوں کا، اپنی بیٹی بیبی فاطمہ (ع) کو جنت میں عورتوں کی سردار کا درجہ دیا، اور اپنے چچا زاد بھائی کو غدیر کے موقع پر سب کا مولیٰ بنا دیا تو یہ سب محمد (ص) کے انسانی فطرت پہ مبنی فیصلے نہیں تھے بلکہ اللہ کے احکام تھے۔

           

سنّیوں کے مطابق شیعہ، محمد (ص) کی آل کو بے وجہ انتہا سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور انکا اسلام صرف انہی پانچ شخصیات محمد(ص)، علی، فاطمہ، حسن اور حسین (ع) کے گرد گھومتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ اسلام ہمیشہ سجدے میں جھکے رہنے کا نام نیہں اسلئے اگر اہل البیعت سے محمت کرنا اللہ کا حکم ہے تو اس حکم کو کہانی مان کر نظر انداز کرنا غلطی ہے۔

 

 بلکہ اہل البیعت ہی مسلمان کے ایمان کا سب سے بڑا امتحان ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے کہا، انسان نے جنت نہیں دیکھی، دوزخ نہیں دیکھی، خدا نہیں دیکھا، فرشتہ نہیں دیکھا، دیکھا تو صرف ایک انسان (رسول(ص)) کا دعویٰ۔ اوپر سے یہی شخص جنت کا سردار اپنے نواسوں کو بنا دے، مولیٰ اپنے بھائ کو بنا دے اور عورتوں کی سردار اپنی بیٹی کو بنا دے، تو ہر شخص کے دل میں خیال اجاتا ہے کہ کہیں اسلام صرف طاقت کے لئے، نام کے لئے ایک ڈراما تو نہیں جس کی وجہ سے نبوت کا عویٰ کرنے والا ہر چیز میں اپنے قریبی خنوادے کو اہمیت دے رہا ھے؟ یہ اہمیت رسول(ص) پر وحی ھے، اور خدا کی خواہش ھے، اس اہمیت پر شق کرنا رسالت پر شق ھے۔

 

 یہ بات ہمیں"مباحلہ" کی طرف لے جاتی ہے، ایک  ایسا واقعہ جو کہ سنی اور شیعہ کے درمیان تنازع کا شکار ہے۔  دونوں فقہ اس بات پر اتفاق کرتے ھیں کہ نجران سے ایک وفد رسول(ص) کے پاس ایا تھا۔۔
 

ابن اشحاق اپنی مشہور  عام سیرت میں لکھتے ہیں، انکے علاوہ دوسرے مورخیئن نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے بطور فود حضور پاک (ص) کی خدمت میں اپنے ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں سے چادہ انکے سردار تھے، پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے۔ عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمیئن ہو جایا کرتے تھے، سید، اور حارثہ بن علقمہ جو انکا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا۔ یہ شخص آپ (ص) کی صفت و شان سے واقف تھا اور اگلی کتابوں میں آپ (ص) کی صفتیںپڑھ چکا تھا۔ دل سے اپ (ص) کی نبوت کا قائل تھا مگر نصرانیوں میں جو اس کی تکریم و تعظیم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اسے حاصل تھا، اسکے چھن جانے کی وجہ سے راہ کی طرف نہیں آتا تھا۔ 

غرض یہ وفد مدینہ میں مسجد نبوی میں رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ص) اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹھے ہی تھے۔ یہ لوگ نفیس پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوبصورت چادریں اوڑھے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بنو حارث بن کعب کے لوگ ہوں۔ صحابہ کہتے ہیں کہ انکے بعد انکے جیسا با شوکت وفد کوئی نہیں آیا۔ انکی طرف سے بولنے والے یہ تین شخص تھے، حارثہ بن علقمہ، عاقب یعنی عبد المسیح اور سید  یعنی ایہم، یہ گوشاہی مذہب پر تھے مگر کچھ امور پر اختلاف رکھتے تھے۔  حضرت مسیح کی نسبت انکے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے۔ انکے پاس یہ سب ماننے کے لئے حجت یہ تھی کہ حضرت ّعیسٰی کا بظاہر کوئی باپ نہ تھا اور گہوارے میں ہی بالنے لگے تھے۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ انسے پہلے دیکھنے میں ہی نہیں آئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 3, Verse 61


 رسول اللہ (ص) نے قران سے جواب دیا۔
 

عیسٰی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اسے اس نے مٹی سے بنایا پھر اس سے کہا "ہوجا" اور وہ ہو گیا۔
Quran [3:59]


 نجرانی وفد محمد (ص) سے بحث کرتے رہے جب تک کہ یہ آیت نازل نہ ہوئی۔
 

اور اگر اس علم کے بعد جو تجھکو آیا ہے کوئی تجھسے جھگڑا کرے تو کہہ دے "آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں� اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں� اپنے تیئں اور تمھارے تیئں بلایئں اور گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔
Quran [3:61]


 یہاں آکر دونوں فقوں کی رائے بدل جاتی ہے۔ سنیوں (کچھ) کے مطابق یاس آیت کے نازل ہوتے ہی نجرانی وفد پیچھے ہٹ گیا تھا۔

 

جبکہ شیعہ اور باقی  سنی کا یہ ماننا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے اللہ کے حکم کی عطاعت کرتے ہوئے نصرانیوں کو مباحلہ کی پیش کش کی، جسے انہوں نے قبول بھی کیا پر جب مباحلہ کے دن انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (ص) اپنے ساتھ کن لوگون کو لائے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔

 

اس سے پہلے کہ یہ واضح کیا جائے کہ اہل البیعت کی منفرد اور امتیازی حیثیت اس واقعہ سے ثابت ہوتی ہے، میں سنّیوں کا شق دور کرنا چاہوں گا کہ مباحلہ واقعی ہوا تھا۔ سنّیوں سے مراد وہ گروہ جسکے حساب سے مباحلہ ہوا ہی نہیں تھا

 

ابن کثیر کے مطابق
 

بخاری میں بروایت حضرت حذیفہ (رض) سے مروی ہے، نجرانی سردار عاقب اور سید ملاعنہ کے ارادے سے رسول (ص) کے پاس آئے مگر ایک نے دوسرے سے کہا ، یہ نا کر اللہ کی قسم! اگر یہ نبی (ص) ہیں اور ہم نے انسے ملا عنہ کیا تو ہم اپنی اولادوں سمیت تباہ ہوجایئں گے چنانچہ ٌپھر دونوں نے متفق ہوکر کہا، حضرت آپ (ص) ہم سے جو طلب فرماتے ہیں ہم وہ سب ادا کر دیں گے (یعنی جزیہ دینا قبول کرلیا) آپ کسی امین شخص کو ہمارے ساتھ کر دیجیئے اور امین کو ہی بھیجنا۔ 
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 3, verse 61


 مودودی لکھتے ہیں
 

فیصلہ کی صورت سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ وفد نجران جان باجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔ اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا بھی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ مصیحت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ  ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر وہ خود کامل یقین کے ساتھ  یہ دعوٰی کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔  پھر نبی (ص) کی سیرت، آپ (ص) کی تعلیم اور آپ (ص) کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہل وفد اپنے دلوں میں آپ (ص) کی نبوت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے۔  اس لئے جب انسے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت پر پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلے میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلے کے لئے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات سارے عرب پر کھل گئی کہ نجرانی مصیحت کے پیشوا اور پادری جن کے تقدس کا سکّہ دور دور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انھیں کامل اعتماد نہیں۔
Tafheem al Quran, By Abul Aala Maududi, Tafsir of Surah 3, Verse 61


 یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ

  1. ۔ ابن کثیر کے مطابق، نجران کے نصارٰی کے وفد کے ایک بزرگ نے محمد (ص) کو مباحلہ کی دعوت دی۔

  2. ۔ ابن کثیر یہ بھی لکھتے ہیں کہ دوسرے نصارٰی (جو اس وفد میں شامل تھے)  کا خیال تھا کہ اگر محمد (ص) واقعی نبی ہوئے تو انکی نسلیں تباہ ہو جایئں گی، اسلئے ان (ص) سے مزاکرات کرنا بہتر ہوگا۔

  3. ۔ ابن کثیر آخر میں لکھتے ہیں کہ محمد (ص) نے مباحلہ کے لئے کسی کو جمع نہیں کیا تھا اور نصارٰی اس خوف سے کہ کہیں محمد (ص) حقیقی نبی نہ ہوں، پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے۔

  4. ۔ مودودی کے حساب سے مباحلہ کی دعوت محمد (ص) نے دی تھی، نصرانیوں کے جھوٹے عقائد کو ظاہر کرنا تھا۔

  5. ۔ انکے خیال سے نجرانی مباحلہ کی دعوت سنتے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ انکو اپنے عقائد پر خود بھی بھروسہ نہیں۔

  6. ۔ دونوں تفاسیر اس اہم نقطے کو نظر انداز کر رہی ہیں کہ محمد(ص) نے اپنے بیٹون اور عارتوں کو مباحلہ کے لئے جمع کیا تھا۔

 

مجھے ابن کثیر کے خیال کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن خود یہ واضح کرتا ہے کہ مباحلہ کی دعوت قرآن کا حکم تھا۔ ابن کثیر کی رائے مودودی کی تفسیر کے بھی خلاف جاتی ہے، جن کے مطابق نصارٰی اپنے ضعیف عقائد سے واقف تھے، اور اسلئے وہ اتنے بڑے مقابلے کی خود کی خود پیشتش نیہں کر سکتے۔

 

 اگر ابن کثیر کی تفسیر سے موازنہ کیا جائے تو مودودی کی تفسیر زیادہ معتبر ہے، اس اعتبار سے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مباحلہ کی دعوت اللہ کا حکم تھا، تاکہ نصارٰی کے کمزور عقائد ظاہر ہوجایئں۔

 

میرا سوال یہ ہے کہ وہ لاحے عمل کیوں نا اختیار کیا گیا جو اسے پہلے اسی طرح کی صورتحال میں کیا گیا تھا? یعنی
 

کہہ "اے انکار کرنے والو !  میں اس کی عبادت نہیں کرتا، جسکی تم عبادت کرتے ہو، نہ تم اسکی عبادت کروگے جسکی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اس کی عبادت کرونگا جسکی عبادت تم کیا کرتے ہو، نہ تم اس کی عبادت کروگے جسکی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارا دین تمھارے لئے اور میرا دین میرے لئے۔"
Quran [109:1-6]


 رسول اللہ (ص) کا پیغام حق اور سچائی تھا، اسی لئے جب بھی کسی نے انسے بحث کی، منہ کے بل کھائی۔ اور اگر غلط ہونے کے باوجود کوئی اسلام قبول نا کرتا تو تو انکے لئے انکا دین اور محمد(ص) کے لئے انکا دین تھا۔   پھر آخر تبلیغ کی اس منزل پر آکر جب مکّہ بھی فتح ہو چکا تھا، مباحلہ کی کیا ضرورت تھی? کیوں کچھ مخصوص لوگوں کو بلا کر کافروں پر لعنت بھیجنا ضروری تھا؟

 

شاید ایسا کرنا نصارٰی کو غلط ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا (جیسا کہ جناب مودودی لکھتے ہیں) یا بھر یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ سچے کون ہیں۔ پر چند لوگوں کی سچائی کی تصدیق کیوں ضروری تھی؟
 

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
Quran [9:119]

 
سچے کون ہیں اور ہمیں انکے ساتھ کیوں ہو جانا ہے، اسکا بیان آگے آئے گا۔
 

اور اگر اس علم کے بعد جو تجھکو آیا ہے کوئی تجھسے جھگڑا کرے تو کہہ دے "آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں� اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں� اپنے تیئں اور تمھارے تیئں بلایئں اور گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔
Quran [3:61]


  اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ

  1. ۔ کیوں رسول اللہ (ص) نے نجران کے وفد کے ساتھ و ہی روایہ نیہں اپنایا کہ "تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے"؟ ۔

  2. ۔ رسول اللہ (ص) کو کیوں اپنے بیٹوں اور عورتوں کو جمع کرنا تھا، کیا انکی(ص) اپنی بد دعا کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟

  3.  ۔ کیوں محمد (ص)کو اپنے بیٹوں کو جمع کرنے کو کہا گیا جب انکے کوئی سگے بیٹے زندہ ہی نیہں تھے؟

  4. ۔ کیا یہ ممکن تھا کہ محمد (ص) کے بیٹوں، عورتوں یا قریبی لوگوں نے (جنہیں مباحلہ کے لئے جمع کرنے کا حکم دیا گیا تھا) کبھی جھوٹ بولا ہو اور یوں انکی بددعا انہی کے خلاف چلی جائے? اور آخر صرف قریبی لوگ ہی جمع کرنے کا کیوں کہا گیا؟ کیا باقیوں میں سے کہئ سچا نہیں تھا؟

  5. ۔ کیا محمد (ص) نے قرآن کا حکم بجا لاتے ہوئے کسی کو جمع کیا تھا یا نصارٰی مباحلہ کا سنتے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے؟

 

 سورۃ الکافرون مکّی  سورہ ہے۔ اس وقت تک مولا علی (ع) کی بیبی فاطمہ (ع) سے شادی نہیں ہوئی تھی، اسلئے  امام حسن اور حسین (ع) کی تب تک ولادت نہیں ہوئی تھی۔
 

 تقریباً تمام معتبر تفاسیر کے مطابق سورۃ آل عمران کی آیات انسٹھ تا اکسٹھ، 10ھ میں نازل کی گیئں تھی، اس موقع پر جب نجران کے نصارٰی کا ایک وفد محمد (ص) سے حضرت عیسٰی کے اللہ کے بیٹے ہونے پر بحث کر رہا تھا۔ اگرچہ نصرانیوں نے مباحلہ کی دعوت قبول نہیں کی تھی، اور محمد(ص) کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا جسکے مطابق رسول اللہ(ص) نے انکے بنیادی حقوق کی پاسبانی اور انکو اپنے دین پر چلنے کی رعایت دی تھی۔
یہ تفسیرکا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
 The message of The Holy Quran, By Muhammad Asad, Tafsir of Surah 3, verse 61


مباحلہ 10ھ میں پیش آیا تھا۔ پنجتن پاک (جن کو ایت تطہیر کے حساب سے پاک کر دیا گیا) {محمد (ص)، علی (ع)، فاطمہ (ع)، حسن (ع)، حسین (ع)، } موجود تھے۔ یہ واقعہ رسول اللہ (ص) کی رحلت سے دو ماہ پہلے پیش آیا۔ نظریتاً، چونکہ پنجتن پاک اب سارے موجود تھے اور رسول اللہ (ص) کے لئے دین کو سمیٹنا تھا تو شاید مسلمانوں کو یہ دکھانا اور بتانا لازمی تھا کہ سچے کون ہیں اور ان(ص) کے بعد کن کو اپنے لئے جاگتی مثال بنانا ہے۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے نصرانیوں کے ساتھ وہ رویہ (سورۃ الکافرون) نہں اختیار کیا جو وہ مکہ اور کفار مدینہ کے ساتھ اختیار کر چکے تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مباحلہ کی پیش تش کے بعد بالا آخر وہ ہی طرز اپنایا گیا کہ عیسائیوں کو اپنا دین رکھنے دیا گیا۔۔ اب یہ سوچ ہم آپ پہ چھوڑتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے پورے معملے میں ایت مباحلہ کا نزول کیوں ہوا، اگر عیسائیوں کو عیسائت پر ہی رہنے دینا تھا، اور اگر کسی کو بھی اس ایت کی تکمیل کے لئیے جمعہ نہیں کیا گیا تھا۔

 

بات وہ ہی ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں انکے لئے ہر اتیفاق کوئی علامت ہے اور جو نیہں رکھتے انکے لئے علامات بھی محض اتیفاق ہیں۔

 

میرے نزدیک مباحلہ کا مقصد نصارٰی کو غلظ ثابت کرنے  سےزیادہ  سچوں کی پہچان کرانا تھا۔ کنونکر بہت سے نصرانی اس واقعہ سے پہلے اسلام قبول کر چکے تھے جو کہ اس بات کی دلیل تھی کہ  عیسائیوں کے عقائد کمزور ھیں۔۔   

  

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ رسول اللہ (ص) کی بد دعا اکیلے ہی کافی ہوتی۔ بے شک۔ مگر ہم سرکار کایئنات پہ درود بھیجتے ہیں تو انکی آل کو بھی اس درود میں  شامل کرتے ہیں، جسکی وجہ  یہ ہے کہ انکی آل بھی اللہ کے خاص چنے ہوئے لوگ تھے، جیسے کہ اللہ نے پہلے کچھ قوموں کو چنا تھا۔ 
 

اللہ نے آدم� نوح� آل ابراہیم اور آل عمران کو سارے جہاں میں سے چن لیا تھا
Quran [3:33]


   محمد (ص) کے نزدیکی لوگ جنکو مباحلہ کہ لئے جمع کیا گیا تھا، انکے اہل البیعت ہیں۔ وہ ہی لوگ جن کو ہر رجز سے پاک کیا گیا تھا(آیت تطہیر)، جن پر رسول اللہ (ص) کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ حرام ہے۔ محمد (ص) کی بد دعا بلا شبہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے پر انکو (ص) اپنے قریبی لوگوں کو اکھٹا کرنے کو صرف اسلئے کہا گیا تھا تاکہ مسلمانوں پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکے(ص) اہل البیعت کون ہیں جن سے محبت ہمارے دین کا حصہ ہے اور جن کی پیروے کرنا ہمارے دین کا اہم تقاضہ ہے۔

 

محمد (ص) کے دونوں بیٹے شیر خوارگی میں ہی وفات کر گئے تھے اور قرآن کی روح سے
 

محمد تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں،  وہ اللہ کا رسول ہے اور نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کرنے والا ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا ہے۔
Quran [33:40]


   
جب محمد (ص) کسی مرد کے باپ نہیں تھے اور انکے سگے بیٹے زندہ ہی نہیں تھے تہ بھر کیوں اللہ تعالٰی نے انھیں (ص) اپنے بیٹوں کو جمع کرنے کا حکم دیا؟
 

اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا "میرے رب! میرا بیٹا میرے گھرانے میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں کا بڑا حاکم ہے"۔ اسنے کہا " اے نوح! وہ تیرے گھرانے میں سے نہیں� اسکا عمل نادرست تھا�  پس مجھسے وہ نہ مانگ جسکا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں تو نا دانوں میں نہ ہو جائے"
Quran [11:45-46]


  نوح(ع) کا بیٹا نوح کے خنوادے میں سے نہیں تھا۔ دنیاوی اعتبار سے ضرور ہو گا پر خدا کے بناے ہوے رشتے ہی اصل رشتے ھیں۔ 

 

 محمد (ص) مباحلہ میں بیٹوں کے طور پر امام حسین (ع) اور امام حسن (ع) کو لائے تھے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) انھیں اپنے نواسے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا بیٹا تصور کرتے تھے۔ اور چونکہ محمد (ص) کا کوئی بھی فعل اللہ کی رضا کے بغیر نہیں ہو سکتا، تو انکا امام حسن اور حسین (ع)کو اپنے بیٹوں کی جگہ پر لانا ً  اللہ کا فیصلہ تھا۔

 

ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ مباحلہ میں جھوٹوں پر لعنت بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اگر ان لوگوں  نے جنکو مباحلہ کے لئے جمع کیا گیا تھا  کبھی بھی خود جھوٹ بولا ہوتا تو بد دعاء انکے اپنے خلاف بھی جا سکتی تھی۔اور اگر یہ لوگ مستقبل میں جھوٹ بول سکتے تھے تو مسلمانوں کے لئے پریشان کن بات ہوتی (کہ رسوب اللہ (ص) نے جنکے سچے ہونے کی تصدیق کی، وہ بھی جھوٹ بول سکتے ہیں)۔  یہ  نقطہ ان لوگوں کی معصومیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

اپ غور کریں کہ ایت کے حساب سے جھوٹوں پر لعنت کرنتے کے لیئے رسول(ص) کو سچے جمع کرنے کا نہیں بلکہ اپنے قریبی رشتے دار جمع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شاید یہ اس ابت کی دلیل ہے کے سچائ کی خصوصیت، با تکمیل، یا تو رسول(ص) کے پاس تھی، یا ان کہ قربہ کے پاس۔ اور اپ(ص) کے قربہ خدا کے چنے ہوے تھے جس کی وجہ سے ان کو جگہ جگہ برتری اور ان کے ساتھ خاص برتاو کیا گیا۔

 

اب حقائق  کی طرف آتے ہیں کہ کیا محمد (ص) نے کسی کو جمع کیا تھا اس ایت کی پیروی کے لئے یا نہیں؟
 

 اور اگر اس علم کے بعد جو تجھ کو آیا ہے کوئی تجھسے جھگڑا کرے تو کہہ دے "آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں� اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں� اپنے تیئں اور تمھارے تیئں بلایئں اور گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں
Quran [3:61]


جواب ہے کہ "ہاں" محمد (ص) نے چند لوگوں کو جمع کیا تھا، اور یہ وہ ہی لوگ تھے جنہیں رسول اللہ (ص) پہلے بھی جمع کر چکے تھے 
 

  اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے� ایے اس گھر کے رہنے والو! ناپاکی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔
Quran [33:33]

  

عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضور پاک(ص) اونٹ کے بالوں سے بنی ہوئی کالے رنگ کی چادر پہنے باہر نکلے تو حسن بن علی آئے، اور رسول اللہ (ص) نے انھیں اپنی چادر میں لپیٹ لیا بھر حسین بن علی آئے، انھین بھی حسن کے ساتھ ہی چادر میں لپیٹ لیا، بھر فاطمہ آیئں، انھیں بھی لپیٹ لیا پھر علی آئے تو رسول اللہ (ص) نے انھیں بھی اپنی چادر میں لے لیا اور پھر فرمایا "اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے� یے اس گھر کے رہنے والو! ناپاکی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔
 یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih-e-Muslim - Book 031, Number 5955

Click below for scanned page:
Tafseer Ibn Kathir, Tafseer of Surah 33, Ayat 33


 ابن کثیر اور مودودی کو شاید انکے تعصب نے اہل البیعت کا ذکر کرنے سے روکا ہوگا۔ میں یہاں کچھ اور تفاسیر پیش کرنا چاہونگا۔
 

رسول اللہ (ص) نے وفد نجران کو مباحلہ کی پیشکش کی تھی جب وہ انسے (ص) حضرت عیسیٰ کے بارے میں بحث کرنے آئے تھے۔  مباحلہ کی  پیشکش پر انھوںنے کہا "کہ ہمیں سوچنے کے لئے کچھ وقت درکار ہے"۔  ان میں سے ایک دانشمند نے اپنے ساتھیوں کو مباحلہ نہ کرنے کا مشورہ دیا یہ کہہ کے کہ جب بھی کسی قوم نے کسی نبی سے مقابلہ کیا ہے، وہ تباہ ہو گئے ہیں۔  جب وہ رسول خدا (ص)سے ملنے گئے تو رسول اللہ (ص) علی (ع)، فاطمہ (ع)، حسن (ع) اور حسین (ع) کے ساتھ تھے اور انھوں (ص) نے وفد نجران سے کہا کہ "جب ہم دعا مانگوں تو ہمارے ساتھ آمین کہنا"۔  مگر وہ نے ایسا کرنے کے بجائے جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے، جیسا کہ ابو نعام نے بتایا ہے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ مباحلہ کر لیتے تو اپنے گھر واپس جاتے جاتے نہ انکی ملکیتیں سلامت رہتی نہ خاندان۔  یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اگر وہ مباحلہ کی نیت سے بھی نکلتے تو آگ سے حلاک ہو جاتے۔

سی طرح کی تشریح ال واحدی کی تفسیر "اسباب النزول" میں بھی ملتی ہے۔

 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود
 ہے۔

Tafsir al-Jalalayn, Tafsir of Surah 3, verse 61


  ال جلالین کی تفسیر سے  یہ واضح ہوتا ہے کہ جب نجرانی وفد آپس میں مشورہ کر رہے تھے،  رسول اللہ (ص) نے  امام علی (ع)، بیبی فاطمہ (ع)، امام حسن (ع)، اور امام حسین (ع) کو مباحلہ کے لئے جمع کیا تھا۔ ال واحدی کی تفسیر سے بھی متشابہ بات پتہ چلتی ہے۔
 

 

ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْدلچسپ بات اب یہ ہے۔ رسول اللہ (ص) نے اپنے بیٹوں کے لئے امام حسن اور حسین (ع) کو چنا، اپنی عورتوں کے لئے اپنی بیٹی بیبی فاطمہ (ع) کو چنا اور اپنے نفس کے لئے امام علی (ع) کو چنا (عربی ایت میں لفظ نفس کا استعمال ہوا ھے۔)۔ مباحلہ سن 10ھ میں پیش آیا تھا، رسول خدا (ص) کی رحلت سے صرف دو مہینے قبل۔ مکّہ فتح ہو چکا تھا۔ اگر محمد (ص) چاہتے تو اپنی کسی اہلیہ کو، کسی ساتھی کو، 10،000 مسلمانوںمے سے کسی کو بھی چن لینے، بھر آخر انھوں نے صرف انھی چار لوگوں کو کیوںمنتخب کیا? یا تو وہ تعصب کا شکار تھے (نعوزوباللہ) یا صرف یہ وہ لوگ تھے جو قرآن کی رکھی ہوئی شرط (مکمل سچائی) پر پورے اترتے تھے۔ آپکا جواب آپکے پاس ہے۔

 

رسول اللہ (ص) نے مسلم دنیا کو یہ دکھا دیا کہ سب صحابیوں میں سے ، سارے رشتہ داروں میں سے بیبی فاطمہ، علی، حسن اور حسین (ع)  انسے سب سے قریب اور سب سے سچے تھے۔

 

سنی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ  حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان انتہائی صادق اور رسول اللہ (ص) سے سب سے قریب تھے۔ میں آبسے پوچھتا ہوں کہ اگر ایسی بات تھی تو ان کو مباحلہ کے لئے کیوں نہ لے جایا گیا? اگر ان لوگوں نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر صرف حق بات کی ہوتی تو انکو سچے لوگوں کے اس گروہ میں ضرور شامل کیا جاتا۔  انکا اس گروہ سے اخراج اس بات کی دلیل ہے کہ  امام علی،  بیبی فاطمہ، امام حسن اور حسین (ع) اپنی قسم کی ایک علیحدہ جماعت تھے، جن کا کوئی ثانی نہ تھا۔  اور تو اور یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر کو دیا گیا �صدیق اکبر� کا خطاب بھی ایک ڈھکا سلّہ تھا۔ 
 

عباد اللہ بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں نے خود علی (رض) کو بیان کرتے سنا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں، اسکے رسول (ص) کا بھائی اور صدیق اکبر (رض) ہوں۔  میرے بعد جو اس قسم کا ادعا کرے وہ جھوٹا اور مفتری ہوگا۔ میں نے دوسرے لوگوں سے سات سال قبل رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز پڑھی ہے
۔
   Click below for scanned page:
Tareekh e Tabari, Volume 2, page 65


بحر حال کسی شیاء تفسیر کی شمولیت بھی ضروری ہے تاکہ لفظ "قریبی لوگ" کا صحیح مفہوم بیان کیا جا سکے۔
 

بہت سے علماء، تشریح بیان کرنے والے اور روایات نقل کرنے والے، جنھیں امت قابل اعتبار سمجھتی ہے، اس واقع کی تفصیلات یوں بیان کرتے ہیں:

موقع کی سنجیدگی ایسے لوگوں کو طلب کرتی تھی جوکہ روحانی اور جسمانی دونو اعتبار سے مکمل طور پر پاکیزہ ہوں۔ رسول اللہ(ص) نے اللہ کی رہنمائی میں صرف اللہ تعالٰی کی بہترین تصنیف (اہل البیعت) کو ہی چنا۔  اس واقعہ نے بلا شبہ اہل البیعت کی پاکیزگی، سچائی اور پارسائی کو ثابت کر دیا۔ اس واقع نے یہ بھی واضح کر دیا کہ رسول اللہ (ص) کے اہلا البیعت کون تھے۔
 
ْلفظ "انفس"، نفس کی جمع ہے جسکے معنی "روح" یا "ذات" کے ہیں۔اگر شخصی اعتبار سے استعمال کیا جائے تو  یہ کسی اور ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بالکل وہی شناخت، مکمل اتحاد اور ھمواری  رکھتا ہو۔ چنانچہ دونو لوگ سوچ، عمل اور مرطبے میں ایک دوسرے کی عکاسی کرتے ہوں۔ اس طرح کہ کسی بھی موقع پر ایک دوسرے کی نمائندگی  کرسکتے ہیں۔ اور اگر لفظ "نفس" کی تشریح "لوگ" کی جائے تب بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) کے لوگ صرف علی (ع) ہی تھے۔


حتاکہ ابن حضم، جو کے بنی امیہ حامی تھے، یہ بیان کیا ہے کہ مباحلہ کے وقت محمد (ص) کے ساتھ مقابلے میں حصہ لینے، علی، فاطمہ، حسن اور حسین باہر آئے تھے.
 
اگر رسول اللہ (ص) کے صحابیوں میں سے علی (ع) کے علاوہ کوئی صدیق اکبر ہوتا، تو اسے مباحلہ میں ضرور شامل کیا جاتا۔ رسول اللہ (ص) کی مقصد کے آغاز کے وقت علی (ع) 10 برس کے تھے اور داوت عشیرۃ کے وقت 13 برس کے۔ مباحلے کے وقت امام حسن(ع) چھ  برس کے تھے اور امام حسین (ع) پانچ برس کے۔  
 
لفظ "ان فسنا" رسول اللہ (ص) کے حوالے سے استعمال کیا گیا ہے کہ ایسے انسان کو بلایا جائے جو کہ رسول اللہ (ص) سے جسمانی اور روحانی حیثیت سے انتہائی مطابقت رکھتا ہو۔ کسی بھی مخلوق کو یہ اعزیز حاصل نہیں سوائے علی بن ابو طالب (ع) کے۔ جب بھی رسول اللہ (ص) اپنے ساتھیوں کے مطالق کچھ فرماتے تو علی (ع) کا زکر نا کرتے، جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ "تم نیں لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا، میرے نفس کے بارے میں نہیں۔" ایک مرتبہ آپ(ص) نے برادا  سے فرماےا کہ "اے برادا، علی کی مخالفت مت کرو، بلاشبہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ میں اور علی ایک ہی جڑ سے ہیں، جب کہ باقی تمام لوگ الگ الگ جڑوں سے تعلق رکھتے ہیں۔"     جب رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کو سورۃ براۃ کی ابتدائی آیات کی تبلیغ کے لئے ابو بکر کی جگہ (جنھیں پہلے بھیجا گیا تھا) روانہ کیا، تب رسول اللہ (ص) نے اپنے حیرت ذدہ ساتھیوں سے فرمایا، " کہ مجھے اللہ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ یا تو میں خود ان آیات کی تبلیغ کروں یا وہ جو مجھ سے ہے اور میں جس سے ہوں، ان آیات کو لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔


یہ تفسیرکا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود
 ہے۔

Commentary of Aqa Mahdi Puya, Tafsir of Surah 3, Verse 61


 مندرجہ بالا تفسیر میں سورۃ براۃ کے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مذید تصدیق کے لئے کسی سنی تفصیر کا شامل کرنا بھی ضروری ہے۔  یہ سورۃ بت پرستی سے مکمل لا تعلقی کا حکم دیتی ہے۔ علی (ع) کو سورۃ براۃ کی تبلیغ کرنے کو بھیجا گیا تھا (رسول اللہ (ص) سے قطعی یا مکمل متشابہت رکھنے کی بنا پر)۔ تو علی (ع) نے حضرت ابو بکر کی جگہ (جنکو پہلے تبلیغ کیلئے بھیجا گیا تھا) ان آیات کی تبلیغ کی۔
 

محمد بن اشحاق علی ابو جعفر بن محمد بن علی بن ال حسین سے روییت بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے بتایا جب سورۃ براۃ کا نزول ہوا تو ابو بکر کو امیر حج بنا کر بھیکا جا چکا تھا، رسول اللہ (ص) سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں تو صدیق اکبر کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہی کو پہنچا دیتے۔  آپ (ص) نے فرمایا کہ اسے تو کوئی میرا گھر والا ہی پہنچا سکتا ہے۔  بھر انھوں نے حضرت علی(ع) کو یاد فرمایا اور انسے کہا کہ سورۃ براۃ کی شروع کی دس آیات لے جاکر لوگوں میں قربانی والے دن جب وہ منّا یر جمع ہوں، اعلان کردو کہ کوئی کافر جنّت میں داخل نہیں ہوگا، کسی بت پرست کو اس سال کے بعد حج نہیں کرنے دیا جائگا، کوئی برہنہ طواف نہیں کرے گا۔ مشرکین میں جنسے عہد ہے انسے بدستور رہے گا۔  علی (ع) رسول اللہ (ص) کی عضبا نامی اونٹنی مر سوار ہوکر تشریف لے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Tafsir Ibn Kathir, Tafsir of Surah 9, Verse 3


 اس بات پر فساد ہے کہ نصرانیوں نے مباحلہ سے انکار کب کیا، مگر یہ بات کہ رسول اللہ (ص) نے مباحلہ کے لئے "قریبی لوگوں" میں کنکو شمار کیا، شیشے کی طرح صاف ہے۔

 

ابن کثیر اور مودودی یوں تو صحیح بخاری اور مسلم کا اکثر حوالہ دیتے ہیں مگر یہاں یا تو وہ ان کتابوں کو بھول گئے یا جان کر نظر انداز کردیا۔  مسلم اپنی صحیح مٰیں لکھتے ہیں:

۔۔۔۔۔۔ تیسرا موقع یہ تھا) جب (یہ) آیت نازل ہوئی تھی "آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلایئں" (3:61 ) اللہ کے نبی (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: او اللہ یہ میرے گھر والے (اہل البیعت) ہیں۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Muslim, Book 31, Hadith 5915


 جیسے کے زکر کیا گیا، سچوں کے ساتھ ہونے کا،
 

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
Quran [9:119]


 سچے کون ھیں؟ اگر ہم اپنی عقل سے سچے ڈھونڈیں، تو ہم کسی جھوٹے کو بھی سچا مان سکتے ھیں کیوں کر نیتوں سے، اور خدا کی رضا کس کے ساتھ ھے ھم واقف نہیں۔، ہم اپنی عقلوں سے اگر اندازہ کرنے لگے تو ہر شخص کسی جھوٹے کو بھی سچا مان لے گا، ہر شخص کے لئے سچے علیحدہ ہوں گے، ان کی اپنی رائے کے حساب سے۔ اور پھر اس کا کسی پر کوی گناہ بھی نا ھوگا کیوںکر نیت کے حساب سے یہ شخص ایک سچے کے ساتھ ہی تھا۔ اگر خدا نے سچوں کے ساتھ ھونے کا حکم دیا ہے، تو سچے دکھانے کی زمے داری بھی خدا کی ھے تاکہ کسی سخص کے پاس کوئ بہانا نا رہ جاے۔

 

مباحلہ نے سچے دکھا دیے، اب کسی کے پاس کوئ بہانا نہیں۔

 

خلاصتاً علی، فاطمہ، حسن اور حسین (ع) ہی سچے اور رسول اللہ(ص) کے قریبی لوگ ہیں۔ جو لوگ انسے مقابلہ کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ 
 

جہاں بھی علی مُڑتا ہے حق اس کے ساتھ مُڑ جاتا ہے۔

یہ حدیث کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir al-Kabir, by Fakhr al-Din al-Razi, Commentary of "al-Bismillah"


 اِس ہی طرح صحیح ترمذی کے مطابق،
 

 

اللّٰہ کے رسول(ص) نے کہا، اے میرے رب، آپ علی پر رحمت کیجیئے، اور حق اور سچ کو ہر صورت میں علی کے ساتھ رکھیئے۔

یہ حدیث کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih al-Tirmidhi, volume 5, page 297

 

 شیعہ سچوں کے ساتھ ھیں، ان کی پیروی کر کہ، ان سے محبت کر کے، ان کے دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن رکھ کر، ان کی خوشی کے ساتھ خوشی اور غم کے ساتھ غم کر کے ۔  قران نے، رسول(ص) کی حیات نے سچے واضح طور پر دکھا دئے۔
 

یہ اسلئے کہ کافر جھوٹ پر چلے اور ایمان والے اپنے رب کی طرف سے (آئے ہوئے) سچ پر چلے۔ اس طرح اللہ لوگوں کے لئے ان کے حالات بیان فرماتا ہے۔
Quran [47:3]


 رب کی طرف سے اے ہوے سچ پر چلنا سیکھو، وہ سچ جو مباحلہ میں واضع ہو گیا۔
 

 

قرآن نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے۔ کوئی کسی کے ایمان کو زبردستی نہیں بدل سکتا۔ پر سچ کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہنا صحیح معنوں میں زندہ ہونے کی نشانی ہے!  

 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.