Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

کربلا: ایک وزنی استخراج

About

The following document is an urdu version of the article, "Kerbala: A Heavy Illation". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Shaazia Faiz [shaazia_faiz@hotmail.com]

 

میں نے ان چار وزنی چیزوں کے بارے میں کئ دفعہ سوچا ہے، جن کو سوائے اہلِ بیت (ع) اور آلِ محمد (ص) کے کوئ نہ اٹھا سکا۔

 

ان میں سے زیادہ بھاری خیبر کا دروازہ تھا، جو کہ اس شخص نے اکھاڑا  جسکو نبی (ص) نے عَلم عطا فرمایا۔ ایسا علم جو صرف اس  کا حق تھا جسکو اللّٰہ اور اسکے نبی (ص) سے محبت ہو، اور اللّٰہ اور اسکے نبی (ص) کو بھی اس سے محبت ہو۔ وہ قلعہ جو تمام مسلم  لشکرِ سے فتح نہ ہوسکا، امام علی (ع) نے اکیلے ہی فتح کرلیا۔

 

آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس سے بھاری کیا تھا ؟ اس دروازے سے بھاری امامت کا وزن تھا جس کو اس علی(ع) کی بیٹی نے اٹھایا۔۔ جنابِ زینب(ع) نے امام سجاد(ع) کو اپنی گود میں اٹھا کر جلتے ہوے خیمے سے باہر نکالا۔ اس وزن کا اندازہ صرف زینب(ع) کو تھا، جن کو شاید اس وقت عباس علمدار کی یاد ائ ہو گے۔

 

 اس سے بھی زیادہ وزنی امام حسین (ع) کی چار سالہ بیٹی سکینہ(ع) کا لاشہ تھا، جسکو امام زین العابدین نے اٹھا یا اور بغیر غسل کے، قید خانے ہی میں دفنا دیا ۔ یہ وہ ہی سکینہ (ع) تھیں جو اپنا پینے کا پانی زین العابدین (ع) کی گردن کے گرد بندھی ہوئ زنجیروں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے استعمال کیا کرتی تھیں، جو کہ عراق سے شام کے سفر میں دھوپ سے تپ جایا کرتی تھیں۔

 

اور ان سب سے زیادہ بھاری وہ بوجھ تھا جو امام حسین (ع) بھی نہ اٹھا سکے۔ وہ امام حسین (ع) ، جن میں ستّر شہداء کو دفنانے کی ہمت تھی، جن کے والد میں خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکنے کی طاقت تھی، آپ (ع) اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے علی اکبر کے جنازے کو نہ اٹھا سکے جب وہ گھوڑے سے نیچے گرے۔

 

کربلا نے ہر اس شخص کو چھوا ہے، جس کے سینے میں انسانی دل ہے۔ اور پھر بھی، کربلا ایسا واقعہ ہے کہ ہمارے ذہن کبھی یہ بات مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتا کہ، حسین ابن علی  نے کیوں اپنی تمام ملکیت صرف حاکمِ وقت، یزید معلون، کے انکار پر قائم رہنے کے لئے قربان کردی۔

 

واقعہء کربلا کا مقصد محدود نہیں۔ ہر شخص، ہر دل، ہر دماغ، اس قربانی کو ایک انوکھے زاویے سے دیکھتا ہے۔ کربلا کی یاد جو کہ فخریہ طور پر شیعوں کا دستور مانا جاتا ہے، صرف مسلمانوں کے فرقوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس نے کئ ہندؤں اور عیسایئوں کے دلوں کو بھی پگلا دیا ہے۔
 

 جب ڈکیتوں نے قیصر روم کو اگواہ کر لیا اور اس کی رہائ کے بدلے میں بیس اشرفیاں فدیہ میں مانگیں  تو قیصر  روم ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ وہ نہیں جانتے انہوں نے کس کو اگواہ کیا ہے۔ قیصر روم اپنے اپ کو بیس اشرفیوں سے زیادہ قیمتی سمجھتا تھا اسی لئے اس نے اپنی رہائ کے لئے ڈاکووں کو پچاس اشرفیاں دیینے کا فیصلہ کیا۔
http://www.livius.org/caa-can/caesar/caesar_t01.htm


 شاید یہ آپکو ہمارے موضوع سے ہٹ کر لگے، لیکن یہاں میرا مقصد تاوان یا فدیے (فدیہ) کی تعریف واضح کرنا ہے۔ جب قیصر کو ڈکیتوں نے قید کر لیا تو انہوں نے اسکے تاوان  کی قیمت بیس اشرفیاں، یا ایک ہزار کلو سونا مانگی۔ قیصر کو اپنی قیمت کا علم تھا، لہٰذا اس نے انکو پچاس اشرفیاں، یعٰنی ڈھائ ہزار کلو سونا دیا۔ 

 

اگر کوئ آپ کے لیئے کم حیثیت رکھتا ہے اور خطرے میں ہے، آپ اسکے لئے زیادہ فدیہ بھرنے پر آمادہ نہیں ہونگے۔ مثلاً میں آپکی پالتو بطخ چوری کر لیتا ہوں، اور بدلے میں آپ سے ایک ہزار ڈالر طلب کروں، تو آپ یقیناً نہیں دینگے۔ بہرحال، اگر میں آپکے بیٹے کو اغوا کر لوں اور بدلے میں آپ سے ایک کڑوڑ ڈالر طلب کروں، تو آپ مجھے ایک ملین سے کہیں زیادہ رقم، اور اپنا سب کچھ دینے پر تیار ہو جایئں گے، تاکہ آپ اپنے بیٹ کو واپس لے جا سکیں۔

 

قربانی وہ پہلا لفظ ہے جو کربلا کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں آتا ہے۔
 

اور ہم نے اسے آواز دی اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، نیکوکاروں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بیشک یہی تو کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے اسے ایک عظیم ذبیحہ فدیہ میں دیا۔
Quran [37:104-107]


  سنّی سمجھتے ہیں کہ وہ دنبہ جو ابراہئم(ع) کے ہاتھوں سے کٹ گیا، اسماعیل(ع) کا فدیہ تھا. قران کہتا ہے کہ جو فدیہ اسماعیل(ع) کے بدلے دیا گیا، وہ ہر لحاظ سے عظیم تھا۔ کیا ایک دنبے کی قربانی، اسماعیل(ع) کی قربانی سے افضل ہے؟ ہو سکتا ہے کہ سنیوں کے نزدیک اسماعیل(ع) کی یہی قیمت تھی۔

 

فدیہ کس کا دیا جا رہا ہے ؟ اسماعیل(ع) کا
 

درج ذیل قرآنی آیات آپ کو اسماعیل کی حیثیت کا ایک خاکہ بنانے میں مدد کرینگی

(Quran, 2:125),  اسماعیل(ع) نے اللّٰہ کا گھر صاف کیا
(Quran 2:127), اسماعیل(ع) نے اللّٰہ کے گھر کی بنیادیں رکھیں
(Quran, 6:86)  اسماعیل(ع) دوسروں پر برتر، پسندیدہ، اور چنے ہوئے لوگوں میں سے ہے
(Quran, 19:54)    اسماعیل(ع) کو اللّٰہ وعدوں میں سچا قرار دیتا ہے
(Quran, 21:85) جسکا مستقیم اور صابر لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
(Quran, 38:48) اسماعیل(ع) چنا ہوا ہے
(Quran, 37:101)  اسماعیل(ع) حضرت ابراہیم (ع) کی دعاؤں کا جواب تھا
http://www.al-shia.com/html/eng/books/history/eidul-azha/eidul-azha.html


  اس اسماعیل(ع) کا فدیہ ایک عظیم ذبیحے سے دیا گیا۔ کیا ایک دنبہ کافی تاوان تھا ؟ کافی لوگوں کے لئے یہ ذبیحہ ہی وہ تاوان ہے جسکا قرآن میں وعدہ ہے۔

 

بہرحال، دوراندیش اور عقلمند لوگ، جن کا علم ہی انکی بلاغت کی علامت ہوتا ہے، کچھ اور دیکھتے ہیں۔
 

غریب و سدا و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسمعیل
 Allama Muhammad Iqbal


 
سادی، ایمانداری، استقامت اور عقیدت کے رنگوں سے آراستہ ہے اسلام (کے گھر) کی تاریخ , اسکی انتہا حسین (ع)، محمد (ص) کے نواسے ہیں، جبکہ ابتدا اسماعیل (ع) ہیں


 

میرا یہاں مقصد کربلا کو وہ قربانی ثابت کرنا نہیں جسکا قرآن میں وعدہ کیا گیا، بلکہ کربلا کو سمجھنا ہے، کہ کیوں امام حسین (ع) نے یزید ملعون کے مطالبات کے آگے گھٹنے نہ ٹیکے۔

 

یہ کیا چیز تھی جو اتنی اہم تھی کہ امام (ع) نے اپنے سامنے اپنے بیٹوں، اور بھایئوں کو شہید ہونے دیا۔ اسکی وجہ وہ وعدہ ہو سکتا ہے جو امام (ع) نے رسول (ص) کی زندگی میں آپ(ص) سے فرمایا تھا، اور وہ عہد ہوسکتا ہے جو آپ (ع) نے دنیا میں آنے سے پہلے اللّٰہ کے ساتھ کیا۔

 

اگر کربلا وہ بدلہ تھا جسکا قرآن ذکر کرتا ہے، تو یہ وعدہ امام حسین(ع) نے اس وقت کیا تھا جب ابراہیم(ع) اسماعیل(ع) کی گردن پر چھری چلانے لگے تھے۔۔ شیعہ روایات میں آتا ہے کہ جب ابراہیم(ع) نے اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کو ذبح کرنے سے پہلے اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھی، وہ اسماعیل (ع) جن کی نسل سے احمد (ص) کو دنیا میں آنا تھا، امام حسین (ع) کی روح عالمِ ارواح میں آگے آئ، وہی عالم ِ ارواح جہاں ہم سب نے دنیا میں آنے سے پہلے اللّٰہ سے عہد کیا تھا۔ 
 

اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے انکی نسل نکالی اور انہیں انہی پر گواہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، ہم اسکی گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لیئے تھا کہ کہیں تم روزِ قیامت کو یہ نہ کہ دو کہہ ہم اس بات سے بے خبر تھے۔
 Quran [7:172]


  اور امام حسین (ع) کی روح نے اللّٰہ سے وعدہ کیا کہ وہ اسماعیل(ع) کی جگہ قربانی دینگے، کیونکہ اگر اسماعیل (ع) قربان کر دئے جاتے تو انکی نسل رک جاتی۔ یہ حسین (ع) کی بہتر (اور بڑی) قربانی کا وعدہ تھا جس نے اسماعیل (ع) کو بچا لیا، اور انکی نسل کا پھیلاؤ کیا، اور محمّد (ص) کو دنیا تک لانے کا باعث بنا۔  اس ہی لئے محمّد (ص) نے خود فرمایا 
 

حسین او منی وا انا من الحسین ۔ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے، اللّٰہ اسکو دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھے اور اسکا دشمن ہو جاتا ہے جو اس سے عداوت رکھے۔
A Brief History of The Fourteen Infallibles, page 99


 بیسک حسین(ع) رسول(ص) میں سے تھے۔ پر رسول(ص) حسین(ع) میں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ (ص) حسین میں سے اس وعدہےکی وجہ سے تھے جو حسین نے اللّٰہ سے کیا تھا ، اور جس بہترین طریقے سے آپ (ع) نے اسکو پورا کیا۔ اللّٰہ اپنی محفلمیں انکو یاد رکھتا ہے جو اسکو اپنی محفل میں یاد رکھتے ہیں۔

 

جو قربانی حسین (ع) نے دی، وہ اتنی بڑی اور پرخلوص تھی، اسکا تمام انسانوں پر اتنا اثر ہے کہ اللّٰہ نے یا حسین کو ہر زبان میں، ہر ملک میں، ہر جگہ، ایک مذہب بنا دیا ہے۔ جہاں تک اللّٰہُ اکبر کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک یا حسین کی صدا بھی گونجتی ہے۔

 

وہ کونسی چیز اتنی اہم تھی کہ حسین (ع) نے اپنی چار سالہ لاڈلی بیٹی کو، تین دن کی بھوک و  پیاس میں، صحرا کی گرمی میں تڑبتا ہوا دیکھنا منظور کر لیا؟

 

شاید وہ چیز رسول(ص) کی سچائ کی گواہی دینا تھی، اس بات کی کہ محمّد (ص) نے جھوٹ نہیں بولا، آپ (ص) جو بھی لائے ہیں وہ حق ہے، اور خدا واحد کا وجود ھے جسکے حکم سے، رسول (ص) اسکا پیغام لائے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئ خدا نہ ہوتا، کوئ آخرت نہ ہوتی، تو پھر دنیاوی مال و دولت ہی لوگوں کے لئے سب کچھ ہوتا۔ اگر اخروی زندگی حقیقت نہیں، تو میں دنیا ہی میں سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرونگا۔

 

امام حسین (ع) کی ایک ان دیکھی دنیا کے لئے  اپنے بھائ بیٹوں کی قربانی، ثابت کرتی ہے کہ اخروی زندگی کا کوئ وجود ہے۔ کیونکہ ناعوذ باللّٰہ اگر محمّد (ص) کوئ دھوکےباز ہوتے، اور آپ (ص) کی نبوّت صرف دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لئے ایک ڈرامہ تھا، تو محمّد(ص) کے نواسے حسین کو اس بات کا ضرور علم ہوتا، اور وہ بھی اپنے نانا کے حقیقی مشن (سلطنت) کی خاطر خلیفہء وقت کا ساتھ دیکر اپنی دنیا سنوارتے، ناکہ آخرت کی فکر میں اپنے عزیزوں کو بےآرام کرتے۔

 

وہ کونسا مقصد تھا جو اتنا اہم تھا جس کے لئے امام حسین (ع) نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں، گھرانہء نبوّت کی خواتین، کے پردے کی قربانی دینا گوارا کر لی۔

 

ہوسکتا ہے یہ مقصد اسلام کی پہچان کرانے کے لئے ہو، تاکہ جو خراب چیزیں اسلام میں گھس آئ تھیں انکو الگ کردیا جائے۔ فتح مکّہ کے دن بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ جو کوئ بھی کلمہ پڑھ لے مسلمان ہے، اور اصولاً کسی انسان کو بھی حق نہیں کہ وہ پھر اسے غیر مسلم پکارے ۔ رسول اللّٰہ (ص) نے فتح مکہ کے روز ان لوگوں کو مسلمان مان لیا جنہوں نے تیئس سال تک اسلام کی مخالفت کی تھی۔ کربلا نے انکو اسلام سے ہمیشہ کے لئے جدا کردیا۔         

 

یزید معلون کی فوج میں نمازی بھی تھے اور روزےدار بھی اور حاجی بھی۔ بظاہر وہ اللّٰہ کی وحدانیت اور محمّد (ص) کی نبوّت میں بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ کیا چیز تھی جس نے حُر کو حُر معلون بننے سے بچا کر حضرت حُر بنا دیا۔ حُر کی نماز ، زکوٰتہ ، روزے اور حج حُر کو کیوں نا بچا پاتے اگر وہ حسین(ع) کے خلاف تلوار نکال لیتا؟۔۔۔ حر میں کس چیز کی کمی تھی ۔ ۔ ۔ یہ کمی اہلِ بیت سے الفت کی تھی، یہ کمی امامت پر ایمان رکھنے کی تھی۔ اگر سب امامت میں یقین رکھتے تو کربلا نہ ہوتی۔ وہ 72 شہید جو حسین (ع) میں یقین رکھتے تھے بچ گئے جبکہ باقی لوگ جن کے ظاہری عقائد موجودہ وہابی اسلام کی طرح صرف اللّٰہ اور نبی تک محدود تھے, وہ بھی ظاہراً، غارت ہوگئے۔ کربلا نے یزید کا نام قیامت تک ایک لعنت بنا دیا۔ کربلا نے ثابت کردیا کہ خلافت اور حکومت نہیں، بلکہ  اللّٰہ کا حکم اور اس کی عبادت ہی اس لائق ہے کہ سب کچھ اس کی راہ میں قربان کردیا جاے

 

آج بھی آپ کسی کے نماز روزے کی عادت کو دیکھتے ہوئے اسے متّقی نہیں کہہ سکتے، کہ یہ چیزیں تو غلط نیّتوں سے بھی کی جا سکتی ہیں۔ مگر آج جو کوئ حضرت یزید کہہ دے ثابت کر دیتا ہے کہ جو کھانا وہ کھاتا ہے وہ حرام ہے، جو نماز وہ پڑھتا ہے وہ بیکار ہے، کیونکہ اس نے اسلام  تو سمجھا ہی نہیں۔

 

کربلا نے اچھے اور برے کی پہچان کرنا اسان کردیا۔ اگر علی (ع) کا نام کسی کے ماتھے پر شکنیں لے آئے، جان جایئں کہ وہ منافق ہے۔ اگر یزید کا نام عزت سے لیا جائے تو سمجھ جایئں کہ وہ شخص فاسق اور ظالم ہے۔۔ اس پر عمل کرتے ہوے آپ کبھی لوگوں کے بارے میں غلط رائے نہیں قائم کرینگے۔ نمازی اچھا بھی ہو سکتا ہے، برا بھی، پر یزید کا حُب رکھنے والا کبھی متقی نہیں ہو سکتا۔

 

وہ کونسی اہم چیز تھی جسکے لئے امام حسین (ع) نے چھہ ماہ کے علی اصغر (ع) کی گردن میں تیر لگنا برداشت کرلیا، مگر ہار نہ مانی۔

 

 حسین نے کربلا میں پیش آنے والے تمام مصائب اتنے صبر سے جھیلے کہ اب ہمیں پیش آنے والی کوئ بھی مصیبت بڑی نہیں لگتی، ہر غم غمِ حسین کے سامنے چھوٹا ہے۔ اگر چھہ ماہ کے علی اصغر(ع)، کربلا کی تپتی ہوئ دھوپ میں، شدید پیاس کے عالم میں، تیر کھاتے ہوے مسکرا گئے تو پھر ہم بھی اپنی زندگی میں آنے والی تمام مشکلات کو مسکرا کر جھیل سکتے ہیں۔ کربلا ہمارے لئے ایک سبق بن گیا ہے، اور ہم اپنی زندگیوں میں مشکل ، پریشانی اور مصیبت جیسے الفاظ کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ کربلا کے بعد کوے مشکل، مشکل نہیں رہتی۔

 

امام حسین (ع) نے عبادت کو ہمارے لئے کتنا آسان بنا دیا۔ ہم کسی بھی وقت امام (ع) کے لئے دل سے رویئں ، یہ عبادت ہے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے آس پڑوس میں، خاندان میں، گرمی میں کوئ پیاسا نہ رہے، صرف اسلیئے کہ آپ کے دل و دماغ میں نواسہء رسول (ص) کی کربلا کی پیاس ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کسی عورت کو بری نظر سے دیکھیں، آپ کے ذہن میں وہ پردہ دار بیبیاں آیئں جنکی بے پردگی کی وجہ سے آپ روتے ہیں۔ 

 

حسین (ع) نے ہمیں کبھی نہ جھکنے کا سبق دے دیا، ہار نا ماننے کا درس دے دیا۔

 

وہ کیا چیز تھی جو اتنی اہم تھی کہ حسین پندرہ ہزار نمازیوں کے سامنے، محض بہتّر افراد کے ساتھ، ڈٹ کر کھڑے ہو گئے، اور  شہادت قبول کی۔

 

شاید آپ (ع) نے نماز اور اللّٰہ کی عبادت کے درمیان موجود فرق کا خاتمہ کردیا ۔ میں نماز کے خلاف بات نہیں کر رہا، نماز ایک عبادت ہے، بلکہ جیسے رزقِ حلال کمانا عبادت ہے اور جیسے والدین کی عزت کرنا عبادت ہے۔

 

کافی شیعوں کا خیال ہے کہ امام (ع) نماز عصر کے دوران شہید ہوئے، جو کہ غلط ہے۔ دس محرّم کے دن، امام (ع) نے سب سے بڑی عبادت کی، جہادِ اکبر کیا۔ کیا ایک بڑی عبادت چھوڑ کر دشمن کے موذّن کی دی ہوئ آذان پر، اپنے ہتھیار ڈال کے، نماز پڑھنے جانا کوئ عقل کی بات ہے ۔۔۔۔ کیا آپ اپنی جنگ روک کر بیچ میدان میں نماز پڑھنے جایئں گے۔۔
 

پس اگر تمہیں کوی خوف ہو تو چلتے پھرتے یا سواری پر (ہی نماز پڑہ لو)۔ پھر جب تم امن میں اجاو تو پھر (اس طریق پر) اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم (اس سے پہلے) نہیں جانتے تھا۔
Quran [2:239]


امام حسین(ع) چلتے پھرتے قران تھے۔ وہ با خوبی جانتے تھے کہ اللہ حکم دیتا ہے کہ جنگ کی حالت میں نماز گھوڑں پر پڑی جاے۔ پھر چند روایت کے مطابق مولیٰ حسین(ع) گھوڑے سے اتر کر نماز کیوں پڑنے لگے؟


 

اپنی جنگ کے دوران امام (ع) نے غیب سے ایک آواز سنی جس نے  آپکی قربانی کی قبولیت کا بتا دیا، تب آپ (ع) نے اپنے آپ کو زمین پر گرنے دیا، اور سجدے میں چلے گئے۔ یہ سجدہ ایک سجدہء شکر تھا، جس میں آپ (ع) نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا، کہ اس نے آپ (ع) کو قربانی دینے کی توفیق دی،  آپکی قربانی قبول فرمائ، اور آپ (ع) کا وعدہ پورا کروایا۔

 

امام حسین (ع) نے یہ شکرانہ ادا کرکے ہمیں سکھایا کہ ہمیں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، کہ وہ ہماری بڑی بڑی مشکلوں میں ہماری مدد فرماتا ہے، اور ایسے ذریعوں سے مدد کرتا ہے کہ ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔

 

آج، ہوسکتا ہے لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر وہ مستقل اللّٰہ کی نعمتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، اسکی یاد کو بھول کر، اپنی نافرمانی سے، اللّٰہ کی ناشکری کرتے ہیں۔ نماز عبادت نہیں عادت بن گئ ہے اور شکر الاہی دلوں سے غائب ہو چکا ہے۔ 

 

لہٰذا عبادت اللّٰہ کا شکر کرنا ہے، ہر حال میں، برے حالوں میں بھی، کیونکہ اس نے آپ کو اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا کی اور آپ کی عبادت قبول کی۔ کیونکہ اگر وہ آپکی عبادت قبول نہ کرتا تو بھی آپ اسکو کوئ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

 

میں اپنی محدود عقل، ذہانت اور سمجھ کی وجہ سے کربلا کا مقصد نہیں سمجھا سکتا۔ کوئ بھی یہ پیغام پوری طرح نہیں دے سکتا۔ ہم صرف اپنی سمجھ کے مطابق اس سے سبق لے سکتے ہیں، اللّٰہ خود لوگوں کو توفیق دیتا ہے۔ وہ جن  کو نماز تک محدود سمجھ دی گئی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کربلا نے نماز کو بچا لیا۔ وہ جن کو محض سیاسی سوجھ بوجھ ہے وہ سمجھتے ہیں کربلا ایک سیاسی جنگ تھی۔ آپ جو بھی سمجھیں، میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ کربلا ہمیشہ ہماری سوچ سے بڑھ کررہے گی۔

 

جب شیعہ سڑکوں پر آتے ہیں، حسین (ع) کے لئے روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، اور اپنے سینے پیٹتے ہیں وہ ثابت کردیتے ہیں کہ کربلا سیاسی جنگ نہیں تھی۔ جب تک عزاداری رہے گی، گواہی دیگی کہ کربلا سیاسی جنگ نہیں تھی۔ جب تک لوگ اپنا خون جوش و جذبے سے بہاتے رہیں گے، وہ لوگ جن کو پرواہ نہیں کہ مشرّف حکومت کرے یا نواز شریف، جنکو فکر نہیں کہ امریکا دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت تا ہے یا نہیں، انکا راہِ حسین کے لئے بہایا ہوا خون شہادت دیتا رہے گا کہ کربلا سیاسی جنگ نہیں تھی۔

 

جب حسین (ع) اکیلے رہ گئے تھے، آپ (ع) نے دایئں، بایئں، ہر طرف مدد کے لئے آواز دی۔۔ اسوقت وہاں کوئ نہ تھا جو آپ (ع) کی مدد کرتا۔ آج ہم شیعہ، جو آپ (ع) کے والد علی (ع) سے محبت اور انکی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمارے  پاس موقعہ ہے کہ ہم امام حسین(ع) کی مدد کریں۔

 

لہٰذا جب آپ ایک پیاسا جانور دیکھیں، آپ اسکو پانی دے دیں۔ جب آپ کوئ بھوکا فقیر دیکھیں، تو اسکو کھانا دے دیں۔ جب آپ کسی یتیم کو دیکھیں تو اس سے اچھا برتاؤ کریں۔ اچھا کریں، اور دوسروں کو بھی اچھے کام کرنے کا موقعہ دیں۔ اپنے نفس کے خلاف جنگ کریں، اور اپنے ارد گرد ہونے والی برائ کو مناسب طریقے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اور خلوص دل سے یہ دعا کریں کہ اللہ اپ کو ایسے عمل کرنے کی توفیق دے جس کو کرنے سے اخرت میں امام حسین(ع) اپ سے منہ نا پھیر لیں۔

 

یہ وقت ہے جب ہم امام حسین (ع) کی ، اپنے اپنے طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں، ہمارے شیعہ یا سنّی ہونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ جس طرح حسین (ع) کے نانا کا پیغام سب کے لئے تھا، اس ہی طرح حسین (ع) کا پیغام بھی سب کے لئے ہے۔

 

 اسلام کے دامن میں بس رکھا کیا ہے
ایک ضربِ یداللّٰہِ  ایک سجدہء شبّیری

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.