Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

 امامت ۔ دین کی کاملیّت

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 14
: Imamat in Detail


AboutThe following document is an urdu version of, "Imamat; The Perfection of Deen". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Shaazia Faiz [shaazia_faiz@hotmail.com]
 

 

آدم (ع) کی تخلیق کے وقت سے ہی انسان کے لیئے خدائ طور پر منتخب رہبروں کی آمد کا سلسلہ جارے رہا ہے۔

اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنا نے والا ہوں، تو انہوں نے کہا کیا آپ وہاں اسے بنائیں گے جو وہاں فساد برپا کرے اور خون بہائے، جبکہ ہم آپکی تعریف میں لگے ہیں اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ تو آپ کے رب نے کہا،  میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
Quran [2:30]

اور ہم نے رسول بھیجے جن کا ذکر ہم پہلے آپ سے کرچکے ہیں اور جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا، اور اللّٰہ نے موسیٰ سے کلام کیا۔ ہم نے رسول بھیجے خوشخبری دینے والے اور لوگوں کو متنبہ کرنے والے، تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کی آمد کے بعد کوئ حجّت نہ رہے۔ اور اللّٰہ غالب، حکمت والا ہے۔
Quran [4:164-165]

چناچہ تخلیق کے وقت سے ہی اللّٰہ نے انسانوں کی رہنمائ کے لیئے اپنے نبی یا رسول بھیجے ہیں۔ انبیاء کی آمد کا یہ سلسلہ بہرحال مُحّد(ص) کے وصال کے بعد رک گیا، کیونکہ آپ(ص) خاتم النبیّین ہیں۔

مُحمّد تم میں سے کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں، مگر آپ خدا کے رسول اور نبیوں میں سے آخری ہیں۔ اور اللّٰہ تمام چیزوں کا جاننے والا ہے۔
Quran [33:40]

 حضرت ابراہیم اللّٰہ کے رسول اور دوست تھے۔

اور اس سے زیادہ اچھا مذہب کس کا ہے جو خود کو پورے کا پورا خدا کے سپرد کردے۔ اور وہ دوسروں کے ساتھ اچھا کرتا ہے اور ابراہیم کے عقعدے کی پیروی کرتا ہے، سیدھا راستہ، اور اللّٰہ نے ابراہیم کو اپنا دوست چُن لیا۔ 
Quran [4:125]

جب اللّٰہ نے ابراہیم(ع) کے یقین کا سخت امتحان لے لیا تو وہ  انسان کے امام بھی بنا دئے گئے، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے۔

اور جب اسکے رب نے ابراہیم کو کچھ الفاظ سے آزمایا، اس نے ان کو پورا کر دیا۔ اس کے رب نے کہا، بیشک میں تم کو لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے کہا، اور میری نسل میں سے۔۔۔ رب نے کہا، میرے وعدے یا عہد میں نا انصاف لوگ شامل نہیں۔
Quran [2:124]

چناچہ حضرت ابراہیم پر خدا کی طرف سے دو ذمہ داریاں تھیں، ایک نبوّت کی اور دوسری امامت کی۔

 

میں نے اپنے پرچہ میں ایک آیت شامل کی ہے جو نبوّت کے اختتام کے بارے میں ہے، کیا آپ مجھے قرآن کی کوئ ایسی آیت یا نبی(ص) کی کوئ حدیث دِکھا سکتے ہیں جو امامت کے اختتام کا ذکر کرتی ہو۔۔۔۔ جواب آسان ہے۔ نہیں۔ کیونکہ ایسی آیت مجھے دکھانے کے لیئے اسکا موجود ہونا ضروری ہے، جب کہ ایسے کسے حکم کا سراسر وجود ہی نہیں ہے۔

   

امام کون تھے یہ ایک الگ سوال ہے اور ایک الگ پرچہ میں زیرِ بحث آچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللّٰہ کا نبی اور دوست ہونے کے بعد بھی، اللّٰہ کا امام ہونا حضرت ابراہیم کو اور کیا مقام، رتبہ اور طاقت دیتا ہے۔

 

دوسرا، حضرت  ابراہیم کیوں چاہتے تھے کہ ان کی نسل کو بھی امامت ملے، اور وہ یہ جاننے کے لیئے کیوں بیقرار تھے کہ آیا ان کی دعا قبول ہوئ ہے یا نہیں۔

 

شیعہ اور سنّی امامت کو مختلف طریقوں سے سمجھتے ہیں۔ کچھ تو نبوّت اور امامت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ کچھ امامت اور خلافت یا سیاسی چناؤ کو ایک سا سمجھتے ہیں۔
 

اور ہم نے کوئ رسول نہیں بھیجے مگر خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر، پھر جو بھی یقین کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، اس کو کوئ ڈر نہیں، نہ ہی ان کو افسردہ ہونا چاھیئے۔
 Quran [6:48]

 
نبی اور رسول, اللّٰہ کا پیغام پہنچا دینے کے لیئے بھیجے گئے تھے، خدا کی طرف سے خوشخبری سنانے اور ڈرانے کے لیئے۔ رسول زمین پر اللّٰہ کے نمائندے ہوتے ہیں۔

 

امام بہر حال نبی اور رسل سے مختلف ہوتا ہے۔ جس کی دلیل وہ اپر دی گئی ایت ھے جس میں ابراہیم(ع) کو امامت دی گئی، ان کے نبی ھونے کے با وجود۔ 
 

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب دیا، ایک بیٹے کا بیٹا، اور ہم نے ان سب کو اچھا بنایا، اور ہم نے ان کو امام بنایا جو ھمارے حکم سے لوگوں کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائ کریں، اور ہم نے ان کی طرف بھلائ کے کام کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰتہ ادا کرنے کی وحی کی، اور وہ صرف ہمارے عبادت گزار تھے۔  
Quran [21:72-73]

پھر ہم نے انہیں اور ان کے لشکر کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا، اور پھر دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہؤا۔ اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا جو آگ کی طرف بلاتے ہیں، اور روزِ قیامت ان کی مدد نہیں کی جایئگی۔
Quran [28:40-41]

 
 امام کے لغوی معٰنی پیروی کرنے کے ہیں۔ اپ جس کی انکھ بند کر کہ پیروی کریں، وہ اپ کا لغوی امام ھے۔ ہمارے یہاں امام سے مراد اس شخص کی ہے جس کی  ہر حال میں پیروی کی جائے، وہ نبی ہو یا نا ہو۔ نبی امام ہو سکتا ہے مگر امام کا نبی ہونا ضروری نہیں۔

 

فرعون ایک امام تھا، جو اس کی پیروی کرتے تھے وہ انہیں جہنّم کی آگ کی طرف بلاتا تھا۔ وہ لوگ جو اس کو امام سمجھتے تھے اور اس کے نقشِ قدم پر چلتے رہے برباد ہو گئے۔ 
 

 بیشک میں تمہیں انسان کے لیئے امام (یا سردار) بناؤں گا جس کی پیروی کی جا سکے۔. یہ ابراہیم کے نیک اعمال کے نتیجے میں، اور اس کے احکامات کو پورا کرنے اور بُرائ سے بچنے کی وجہ سے۔یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ نے ابراہیم کو لوگوں کے لیئے ایک مثالی کردار بنا دیا، اور ایک امام بنا دیا جس کے طور طریقے  اور راستے نقل بھی کئے جاسکیں  اور اس کی پیروی بھی کی جا سکتی ہو۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of 2:124


ابنِ کثیر بھی مانتے ہیں کہ امام لوگوں کے لیئے مثالی کردار ہوتے ہیں، اور مثالی کردار کی پیروی کی جاتی ہے، احکامات میں بھی اور اعمال میں بھی۔  

 

 پر سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ کیا ابراہیم(ع) کی پیروی ان کو امامت ملنے سے پہلے، ایک نبی کی حیثیت سے نہیں کی جا سکتی تھی؟ اگر امامت کا ملنا لوگوں کو ابراہیم(ع) کا پیروکار بنانا ہی تھا تو وہ حق ابراہیم(ع) کے پاس ایک نبی کی حیثیت سے پہلے ہی موجود تھا۔

 

یا تو ابن کثیر امامت کو نبوت کے ساتھ ملا گیا یہ جانتے ہوے کہ نبی ابراہیم امام ابراہیم بنے تھے، یا وہ اپنا نظریہ خود ہی سمجھ نہیں پایا۔

 

امامت اور نبوّت کے درمیان ہم کہاں لکیر کھینچیں؟

 

  حضرت شیتھ(ع) ایک نبی تھے امام نہیں۔ آپ(ع) ایک نبی کی حیثیت سے ھمارے لیئے محترم ہیں۔ آپ اپنے ہم عصر انسانوں کو خدا کی طرف سے بھیجی گئی وحی کے ذریعے ہدایت کی طرف بلایئں گے۔ 

 

بہر حال حضرت شیتھ کے تمام الفاظ وحی نہیں ہو سکتے، وہ اپنی مرضی سے بھی کسی چیز کا حکم دے سکتے ہیں، جو اللّٰہ کی طرف سے وحی نا ھو بلکہ ان کی اپنی خواہش ھو۔

 

ان کا یہ حکم پورا کیا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی، چونکہ یہ اللّٰہ کی نہیں ان کی اپنی خواہش ہے۔ اگر دماغ میں یہ رکھا جائے کہ چونکہ آپ اللّٰہ کے رسول ہیں لہٰذا آپکی پیروی کرنی چاھیئے، مگر سخت انداز میں بات کرتے ہؤے ایسا ضروری نہیں اگر یہ ثابت ھو جائے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے نہیں بلکہ نبی کی اپنی ذاتی رائے ھے۔ یہ جو میں نے ابھی کہا، اس بات کو سمجھنے کے لئے اگلے ابارات قیمتی ھیں۔

 

چناچہ حضرت شیتھ(ع) کی امّت کے لیئے حضرت شیتھ  مثالی کردار صرف اس وقت ہیں جب وہ وحی کی پیروی کر رہے ہوں۔ مثلاً اگر آپ کی امّت کو نماز کا حکم دیا جاتا ہے تو حضرت شیتھ  اللّٰہ کے حکم کے مطابق اپنی امّت کو نماز ادا کرکے دِکھایئں گے۔ حضرت شیتھ  نماز کے طریقے میں اپنی طرف سے ردّوبدل نہیں کرسکتے، اور اگر آپ ایسا کریں تو وہ اپکی امّت کے لیئے کرنا ضروری نہیں اگر یہ ثابت ھو جائے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے نہیں بلکہ نبی کی اپنی ذاتی رائے ھے۔ اور کیونکر اب ایک نبی کی حیثیت سے اپنی رائے کو دینی شکل دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اپ خدا کے غصے کے حقدار بن جائہں گے۔۔

 

حضرت ابراہیم نبی بھی تھے اور امام بھی۔ نبی کی حیثیت سے آپ اپنی قوم کے لیئے خدا کی طرف سے نیا پیغام لائے تھے۔  ایک امام کی حیثیت سے آپ کی ذاتی خواہشات اور اعمال بھی مذہبی فرائظ میں شامل  ہو گئیں ۔

 

یہ اجازت بہرحال اللّٰہ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اس کی مثال حج ہے۔ حج کی ادایئگی حضرت ابراہیم اور آپ کے خاندان کا ذاتی عمل تھا جو اللّٰہ نے فرض قرار دے دیا۔

 

اس ہی طرح مُحمّد(ص) امام بھی ہیں اور رسول بھی۔
 

بیشک ہم تمہارے چہرے کا مُڑنا دیکھ رہے ہیں، تو ہم ضرور قبلہ کو تمہاری مرضی سے موڑ دیں گے، پھر اپنا چہرہ مقّدس مسجد کی طرف موڑ لو، اور تم جہاں بھی ہو، اپنا چہرہ اس کی طرف موڑ لو، اور بیشک وہ جن کو کتاب دی گئ ہے جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اللّٰہ بالکل بھی ان کے اعمال سے لا علم نہیں ہے۔
Quran [2:144]

 

قبلے کی تبدیلی مُحمّد(ص) کی خواہش تھی اور اس زاتی خواہش کو اللّہ نے تمام مسلمانوں کے لئے دیں کا فریظہ بنا دیا۔

 

کیا محمد(ص) کی بات ماننا ایسا ہی ہے جیسے اللّٰہ کا حکم ماننا۔۔۔ بظاہراً ہاں، مگر درحقیقت یہ دو مختلف احکامات ہیں۔
 

اے ایمان والوں، اللّٰہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
 Quran [47:33]


اللّٰہ ہمیں بتاتے ہیں کے اگر ہم اپنے اعمال کو برباد ہونے سے بچانا
 چاہتے ہیں تو ہمیں دو چیزیں کرنی ہوںگی،  اللّٰہ کی اطاعت  اور دوسرا اسکے رسول(ص) کی اطاعت۔

 

اگر دونوں ایک  ہیں تو پھر اس آیت میں دو بار ایک ہی حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ مثلاّ اللّہ کی اطاعت کرو اور اللّہ کی اطاعت کرو۔ اگر اللّہ اور رسول(ص) دو الیحدہ وجود ھیں، تو ان کے احکامات میں الیحدگی ھو سکتی ھے، پر اختلاف نہیں۔ بلکل اس طرح جس طرح قبلے کی تبدیلی اللّہ کا حکم نہیں، رسول(ص) کی خواہش تھی۔ 

 

یہ آیت خود ایک ثبوت ہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت ناصرف دو مختلف احکامات ہیں بلکہ یہ ایک سی اہمیت کے حامل بھی ہیں۔

 

مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں ہے، نہ ہی وحی لانے والے فرشتے کو، تو ہم خدا کی اطاعت کیسے کرسکتے ہیں۔۔۔   عقل کہتی ہے کہ مُحمد(ص) کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اللّٰہ کی اطاعت۔ اگرچہ یہ بظاہراً سچ ہے، مگر درحقیقت ایک فرق ہے۔

 

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، مُحمّد(ص) رسول ہی نہیں امام بھی ہیں۔ اللّٰہ کی اطاعت اس وحی کی اطاعت ہے جو جبرئل(ع) نبی(ص) پر لاتے تھے، چناچہ  رسول اللّٰہ کی اطاعت اللّٰہ کی اطاعت ہے۔ محمّد(ص) کی اطاعت، بغیر وحی کی شمولیت کے، مُحمّد(ص) کے زاتی حکم اور خواہش کی اطاعت ان کی ایک امام ہونے کی حیثیت سے  اطاعت ہے۔

 

 یہ وہ دو اطاعات ھیں جو قران نے ھم بر فرض کی ھیں۔ پہلی اطاعت اللّہ کی (وحی کی)، جو کہ محمد(ص) کی اطاعت ھے نبی کی حیثیت سے۔ دوسری اطاعت ھے محمد(ص) کی، ایک امام کی حیثیت سے، جو ان کی زاتی خواھش کی اطاعت ھے۔

 

 اگر کوئ وحی نازل ہوتی ہے جو مسلمانوں کو شراب کا استعمال بند کردینے کا حکم دیتی ہے، اور محمد(ص) بندوں تک یہ بات پہنچاتے ہیں، تو آپ(ص) کی یہ بات ماننا اللّٰہ کی اطاعت کہلائے گی۔

 

اگر کسی معاملے میں وحی نہیں آتی، مثلاّ مُحمّد(ص) آپکو آپکی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیتے ہیں، اگرچہ بظاہر اسکی کوئ وجہ نہیں ہے، اور محمد(ص) یہ بات اپنی مرضی سے کہہ رہے ہیں، پھر بھی اپنی بیوی کو طلاق دینا آپکے لیئے ایک مذہبی فریضہ بن جائے گا، اور یہ آپ کی مُحمّد(ص) کی ایک امام کے طور پر اطاعت ہو گی اگر اب یہ جانتے تھے کہ یہ حکم وحی نہیً بلکہ رسول(ص) کی زاتی رائے ھے۔۔

 

بہرحال ابھی ایک مسئلہ اور ہے۔ ہمیں کیسے پتا چلے کہ نبی(ص) ہمیں جو حکم دے رہے ہیں وہ اللّٰہ کی طرف سے وحی ہے یا آپ(ص) کی ذاتی خواہش۔۔۔ تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ کوئ حکم کس نے دیا ہے، ہمیں نبی(ص) کے منہ سے نکلی ہوئ ہر بات کی ہر صورت میں تعمیل کرنی ہے، چاہے وہ الیٰ اللّٰہ  ہو یا الیٰ الرّسول ۔

 

یہ اسلیئے کیونکہ نبی(ص) امام بھی ہیں اور رسول بھی۔ دونوں میں سے کسی کی بھی نافرمانی ہمیں حق کو جھٹلانے والا بنا دیگی۔

 

اس بات کو با آسانی سمجھنے کے لیئے ہم ایک ایسے پیغمبر کی مثال لیتے ہیں جو امام نہ ہوں، بلکہ صرف اللّٰہ کے پیغمبر ہی ہوں، جیسے کہ حضرت شیتھ ۔ آپ (ع) کی اطاعت تمام وقت آپ کی امّت پر لازم ہے۔

 

چونکہ آپ امام نہیں ہیں بلکہ اللّٰہ کے نبی ہی ہیں، لہٰذا آپ کو اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق بندوں کو احکامات دینے کی اجازت نہیں ہے۔

 

 اگر آپ(ع) ایسا کچھ حکم کرتے ہیں جو اللّٰہ کے حکم کے مطابق نہیں تو پھر اللّٰہ کی پکڑ بہت سخت ہے، اور وہ اپنے پیغمبروں کو ان کے کیئے کی ضرور سزا دیتا ہے۔ حضرات آدم(ع) اور یونس(ع) کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

 

چناچہ اگر کوئ نبی بندوں کو کوئ حکم دیتا ہے تو یہ خودی ثابت ھو جاتا ھے کہ یہ حکم اللّہ کی طرف سے ھے، کیوںکر اگر ایسا نہیں ھوتا اور ایک نبی اپنی طرف سے لوگوں کو حکم دینے لگ جاتا، تو وہ اللّہ کی پکڑ میں اجاتا۔

 

اسکے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ امام کے پاس شراب کو جائز کرنے کی طاقت نہیں جبکہ خدا اسے حرام قرار دے چکا ہے۔ امام کسی بھی چیز کی آرزو کرسکتا ہے، اور اسکی تعمیل کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے، مگر امامت ان کو دی جاتی ہے جو غلطیوں سے پاک اور بالکل معصوم ہوں، لہٰذا انکی خواہش بھی بالکل پاک و صاف ہو گی۔ 
 

فرعون نے زمین میں خود کو اونچا بنا رکھا تھا اور زمین میں رہنے والوں کے فرقہ بنا دیئے تھے، انکے ایک گروہ کو کمزور کرتے ہوئے انکے بیٹوں کو ذبح کرتا اور عورتوں کو رہنے دیتا، بیشک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ اور ہم چاہتے کہ جن لوگوں کو زمین میں بےبس کردیا گیا ہے ان پر احسان کریں، اور انکو امام بنایئں اور ان کو وارث کریں۔
Quran [28:4-5]


 یہ بھی ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات ہے کہ اللّٰہ کمزوروں میں سے امام بنانا چاہتا تھا۔ عقلمند کے لیئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔

 

اب ہم اپنے دوسرے سوال کی طرف واپس آتے ہیں، کہ کیا حضرت ابراہیم ع کو آپکی دعا کے مطابق امامت عطاکردی گئ تھے۔۔۔ جی ہاں
 

جب اللّٰہ نے ابراہیم ع کو امام یا مومنوں کا پیشوا بنا دیا تو آپ نے اللّٰہ سے اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوال کیا کہ آیا ان میں سے امام چنے جایئں گے۔ اللّٰہ نے آپ کی دعا قبول کرلی مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ آپ کی نسل میں سے کچھ نافرمان اور طالم لوگ بھی ہوں گے، اور اللّٰہ کا انکے بارے میں کوئ وعدہ نہیں۔
چناچہ نہ تو وہ امام بنائے جایئں گے نہ ہی انکی پیروی کی جایئگی۔
 
ابراہیم ع کی یہ دعا قبول کرلی گئ تھی اسکا ثبوت اللّٰہ نی سورتہ العنکبوت کی آیت نمبر ستّایئس میں دیا ہے، اور ہم نے اسکی نسل میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ چناچہ ہر نبی جو اللّٰہ نے حضرت ابراہیم ع کے بعد بھیجا وہ آپکی نسل میں سے تھا اور جو بہی  کتاب اللّٰہ نے وحی کی وہ ان ھی کو دی۔
 
اس حصہ کے بارے میں کہ ہمارا وعدہ ناانصاف یا ظالموں کو نہیں شامل کرتا، اللّٰہ نے بتا دیا کہ آپ ع کی نسل میں کچھ ظالم لوگ بھی ہوں گے وہ اللّٰہ کے وعدے سے فائدہ نہیں اٹھایئں گے اور نہ ہی ان کو نبوّت یا امامت کے قابل سمجھا جائے گا، اگرچہ وہ خلیلُ اللّٰہ کی نسل میں سے ہونگے۔
 
ابراہیم ع کی اولاد میں نیک اعمال کرنے والے بھی ہونگے، اور یہی لوگ ابراہیم ع کی دعا سے فائدہ اٹھایئں گے۔
 
ابنِ جریر نے کہا کہ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ظالموں کو بندوں کا امام نہیں بنایا جائے گا۔ اسکے علاوہ یہ آیت یہ بھی بتاتی ہے کہ ابراہیم ع کی نسل میں ظالم اور ناانصاف لوگ بھی شامل ہونگے۔
 
ابنِ خواز منداد ال مالکی نے بھی کہا کہ ، ناانصاف انسان خلیفہ، حکمراں، مذہبی فتوے دینے والا قاضی، گواہ یا حدیث کا راوی بھی بنائے جانے کے قابل نہیں ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Verse 2:124


ابنِ کثیر امامت کو نبوّت ہی کے جیسا بتاتے ہیں جو کہ ہمارے مطابق، جیسا ہم نے اس پرچے میں لکھا، درست نہیں ہے۔ 

 

بہرحال نسلِ ابراہیم(ع) میں ایسے امام تھے جو ناانصاف نہیں تھے، یہ معصومیت کی طرف ایک اشارہ ہے، کیونکہ اللّٰہ نے گناہ کو خود اپنی جان کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔
 

 ان لوگوں کی مثال بری ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور اپنے آپ سے ناانصافی کرتے رہے۔
Quran [7:177]


 چناچہ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ

  1. امام اللّٰہ کی طرف سے چنا جاتا ہے

  2.  ایک نبی امام ہو سکتا ہے مگر امام کے لیئے نبی ہونا ضروری نہیں

  3.   امام معصوم ہوتا ہے

  4.  امام سیاسی حکمران ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

  5.    امامت صرف حضرت ابراہیم ع کی نسل تک محدود ہے

  6.  امام ایک مثالی کردار ہوتا ہے اور اسکی پیروی کرنی لازمی ہے

  7.  نبوّت کی طرح امامت کے اختتام کا اللّٰہ نے کوئ اعلان نہیں کیا۔

 

ہم اب پوچھ سکتے ہیں کہ امامت کی کیا ضرورت ہے، خصوصاً جب نبی(ص) کے وصال کے بعد نبوّت پر ہمیشہ کے لیئے مہر لگا ہی دی گئ ہے۔

 

سنّت یا شریعت وہ ہے جو حضرت مُحمّد(ص) نے کیا۔ جو بھی عمل آنحضرت(ص) نے کیا سنّت بن گیا۔ اسلام ایک دین ہے اور قرآن ہدایت کی کتاب ہے، جبکہ اسکے معلّم مُحمّد(ص) ہیں۔

 

جو بھی مُحمّد ص نے کہا یا کیا وہ دین ہے۔ آپ(ص) دینِ اسلام کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ آپ(ص) کے وصال کے بعد کیا ہمیں یہ کہنا چاہیئے کہ آپ(ص) اپنے ساتھ سنّت لے گئے۔۔۔

 

کیا ہمیں کہنا چاہیئے کہ نبی(ص) کے وصال کے ساتھ دین کی بھی وفات ہو گئ۔۔ کیا یہ انصاف ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اللّٰہ نے بندوں کے لیئے دو چیزیں بھیجیں ۔ قرآن اور نبی(ص) ۔ اور پھر دنیا میں صرف قرآن کو چھوڑ دیا، بغیر کسی معلّم کے، ہم جیسے لوگوں کے لیئے؟ 

 

آیئے تاریخ دیکھتے ہیں
 

یزید بن حوان نے زید سے سنا ایک دن رسول اللّٰہ مدینہ اور مکّہ کے درمیان واقعہ خُم نامی چشمہ کے پاس وعظ کرنے کھڑے ہوئے۔ آپ ص نے اللّٰہ کی تعریف فرمائ، اسکی پاکی بیان کی، پھر وعظ کیا  اور پھر ہم سے کہا اب ہمارے مقصد کے لیئے، اے لوگوں میں ایک بشر ہوں۔ مجھے میرے رب کی طرف سے بلاوہ آنے والے ہے، اور میں اسکے جواب میں چلا جاؤں گا لیکن میں تمہارے پاس دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللّٰہ کی کتاب ہے جسمیں صحیح ہدایت اور روشنی ہے، تو اللّٰہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اس پر رہو۔ آپ ص نے ہمیں اللّٰہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم دیا اور پھر کہا، دوسرے میرے اہلِ بیت، میں تمہیں اپنے اھلِ بیت کی طرف ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim Book 031, Number 5920

 
یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح ہوگا کہ اللّٰہ، بہترین منصف، نے بنی(ص) اور قرآن کو ہماری رہنمائ کےلیئے بھیجا، جبکہ نبی(ص( اپنے پیچھے قرآن اور اپنے اہلِ بیت کو چھوڑ گئے اور ہمیں یاد دہانی کرا گئے کہ ہماری ان دونوں چیزوں کی طرف ذمہ داری ہے۔

 

 شیعت میں امامت کا نظریہ ابراہیم(ع) کو عطا کی گئ امامت سے مختلف نہیں ہے۔ چونکہ اسلام ایک کامل مذہب ہے، قرآن ایک کامل کتاب ہے، نبی(ص) کامل ہیں آپ(ص) کی سنّت اور شریعت کامل ہے، چناچہ مذہب کو سنبھالنے اور حفاظت کرنے والوں کو بھی کامل ہونا ضروری ہے۔ ناصرف کامل بلکہ ہر لحاظ سے کاملیت ضروری ہے، ایسے کامل انسان کو ہم امام کہتے ہیں۔

 

نبی(ص) کے تمام اعمال کی ایک ٹیپ نقل کرکے محفوظ کرنا ضروری ہے، تاکہ آپ (ص) کی سنت کسی فرق اور خرابی کے بغیر محفوظ کی جا سکے۔ یہ نقل معصوم امام ہیں، جو غلطی کر ہی نہیں سکتے، جن کو عقل و علم کی تعلیم نبی(ص) نے خود دی ہے، جو دین اور شریعت کو بدعات اور تفرقے سے بچایئں گے۔

 

یہ امام کچھ نیا نہیں لائے گا بلکہ صرف پچھلے احکامات کو محفوظ رکھے گا۔ جو بھی امام کریگا وہ رسول(ص) کی سنت ہو گی، لہٰذا یہ امام نبی(ص) کی سنت کا ایک چلتا پھرتا پیکر اور سایہ ہونگے۔

 

شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دینِ اسلام جب  مصیبت میں پڑا ہے اسکو بچانے کے لیئے جو مرد آگے بڑھے انہوں نے اپنا سب کچھ اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لیئے قربان کردیا۔ جی ہاں میں کربلا کی بات کر رہا ہوں۔
 

بیشک امام زمین میں مخلوق پر اللّٰہ کے نائب یا خلیفہ ہیں، اور وہ مخلوق کو اللّٰہ کی ذات سے آگاہ کرتے ہیں۔ کوئ جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ ان (ائمہ) کو اور اللّٰہ کو نہ جان لے، اور کوئ جہنّم میں نہ جائیگا سوائے اسکے کہ جو ان (ائمہ) کو اور اللّٰہ کو جھٹلائے۔
 
اللّٰہ، پاک ہستی، نے تم کو اسلام کے لیئے اور اسلام کو تمہارے لیئے چن لیا ہے۔ یہ اسلیئے کیونکہ یہ نام حفاظت کا ہے، اور عزّت کا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Imam Ali (AS), Peak of Eloquence Sermon 152

اللّہ کی نظر میں سب سے زیادہ قریب وہ عادل امام ھے جس کو خدا نے ہدایت دی ھو تاکہ وہ دوسروں کو ہدایت دے سکے۔ یہ امام نبی کے طریقہ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور بدعت تباہ کرتا ھے۔ امام کی زمیداری اچھا مسورہ دینا ھے، سنت کی حفاظت کرنا ھے اور شریع حد لگانا ھے۔ اس لئے علم حاصل کرو ان سے جن کو علم سے نوازا گیا ھے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Imam Ali (AS), Peak of Eloquence Sermons 105 and 164

اللّہ نے نبی بنائے اور ان پر وحی نازل کی۔ اللّہ نے لوگوں کو حق کی دعوت سچے لوگوں کے زریعے دے۔ اللّہ اپنی مخلوق کو جانتا ھے۔ پھر کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے بارے میں علم کے جھوٹے دعوے کئے جبکہ اللّہ نے ہمارا مقام بڑھایا اور ان کا کم کیا اور ھم کو علم کے قلوں میں داخل کیا جبکہ ان کو باہر نکال پھینکا۔ ہمارے ساتھ ہی ہدایت ھے اور اندھوں کے لئے روشنی ھے۔ بیشک امام قریش میں سے ہی ہوں گے جو ہاشم کے زریعے اس نسب میں داخل ھوگئے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Imam Ali (AS), Peak of Eloquence Sermons 144


سنیّوں کو بہرحال نبی(ص) کے وصال کو بعد امام کی اہمیت کو ماننا چاہیئے۔ سنیوں میں امام کی حیثیت اور ذمہ داریاں شیعت کے جیسی ہی ہیں، اور امامت کو سیاسی حکمرانی سے نہیں ملایا جائے۔ فرق بہرحال ائمہ کے چناؤ میں ہے، جسکے بارے میں ہم یہاں بھی بات کرینگے اور بعد کے پرچوں میں بھی۔

 

ذیل میں درج کچھ سنّی حوالے ہیں، انکا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں
 

ائمہ ( چاروں مکتبئہ فکر کے عالِم ، شافعئ، حنفی، مالِکی اور حنبلی) ان پر اللّٰہ کی رحمت ہو، مانتے ہیں کہ امامت ایک لازمی جز ہے، اور مسلمانوں کو ضرور ایک امام چننا چاہیئے جو مذہبی امور پر عمل درآمد کرائے اور مظلوموں کو ظالموں کے مقابلے میں انصاف دے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Imam Al-Juzayri, an expert on the Fiqh of the four great schools of thought in "Fiqh ul-Mathahib ul- Arba'a" [the Fiqh of the four schools of thought], volume 5, page 416
.

یہ سب کو معلوم ھے کہ صحابہ (رض) نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ نبوّت کے اختتام کے بعد امام کا چناؤ ایک واجب عمل ہے۔ بیشک انہوں نے اسکو دیگر فرائض سے زیادہ اہم بنا دیا جبکہ وہ رسول (ص) کے جنازے پر اسمیں مصروف تھے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود
ھے۔
I
mam al-Haythami  in al-Haythami in Sawaa'iq ul-haraqah:17

۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کے لیئے دنیا میں دو اماموں کو (ایک وقت میں) ماننا منع ہے، چاہے وہ ایک دوسرے سے مفاہمت میں ہوں یا مخالفت میں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Al-Imam Al-Juzieri, "Fiqh ul-Mathahib ul- Arba'a" (the fiqh of the four schools of thought), volume 5, page 416.

اکثریت کا نظریہ ہے کہ امام کا چناؤ ایک ذمہ داری ہے۔ مگر ایک فرق
ہے، کہ آیایہ اللّٰہ کا کام ہے یا عوام کی ذمہ داری ہے۔ اہلِ سنّہ اور متزّلیوں کا ماننا ہے کہ امام کا چناؤ عوام کی ذمہ داری ہے۔ یہی بات عقلی اور احادیث کے اعتبار سے بھی ثابت ہے۔
 
اس سلسلے میں صحیح مسلم میں ایک حدیث آتی ہے۔ عبدُاللّٰہ ابنِ عمر سے روایت ہے کہ وہ جو ایک امام کو بعیت دیئے بغیر مر گیا ایسے مرا جیسے کوئ جہالت کے دنوں میں مر گیا ہو۔
 
یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے امام کے چناؤ کو اتنا اہم امر سمجھا کہ انہوں نے اسکو نبی (ص) کے جنازے میں شرکت کرنے پر ترجیح دی، کیونکہ مسلمانوں کو امام کی ضرورت تھی تاکہ جہاد کے بارے میں احکام جاری کیئے جاسکیں، اور تاکہ اسلامی احکامات نافذ کیئے جا سکیں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود
 ھے۔

 Sharh Fiqh Akbar, by Mulla Ali Qari, Chapter “Masala Nusbul Imamah” p 175 (publishers Muhammad Saeed and son, Qur'an Muhall, Karachi)


 شیعوں کی حیثیت سے ہمارا ماننا یہ ہے کہ اللّٰہ جانتا ہے کہ انکے بندوں کے لیئے بہترین کیا ہے۔ جس طرح سے اللّٰہ نے نبی (ص) کو بنی نوعِ انسان کی رہنمائ کے لیئے چنا تھا، اس ہی طرح سے اس نے ائمہ کو چن لیا تاکہ رہنمائ کی یہ چادر بندوں پر سے نہ ہٹے۔

 

ہمارا ماننا یہ ہے کہ کم عقل اور گناہگار انسان اس قابل نہیں کہ وہ ایسا امام چنے جو دین کو مکمل طور پر پیش کرسکے۔ کوئ انسان جو غلطیاں کرسکتا ہے وہ کیسے اسلامی ریاست کو غلطیوں کے بغیر چلاسکتا ہے۔

 

اگر امام کی ذمہ داری مذہب کو محفوظ رکھنا ہے، مذہب بھی ایسا کامل اور غلطیوں سے پاک جیسے اسلام، تو کیا ایک انسانوں کے منتخب کردہ گناہگار امام کی غلطی کی وجہ سے تمام امّت وہ غلطی کریگی۔ ۔ ۔

 

یہ قدرتی طور پر خطرناک نتائج لائے گی، اور ہمارا ماننا ہے کہ یہ خدا سبحان و تعالیٰ کے انصاف کے خلاف ہوگا۔ لہٰذا ہم بحث کرتے ہیں کہ امام کو، اسلامی ریاست کے جائز سربراہ کے طور پر، معصوم ہونا چاہیئے، کیونکہ وہ صرف قانونی اصولوں پہ چلے گا، وہ ذاتی آراء سے محفوظ ہوگا، اور رشوت اور دھوکہ دہی سے بھی، اور اسکا مقصد ایک ہی ہو گا، اللّٰہ کی خدمت کرنا۔
 

اور ہم نے ہر ایک کے لیئے جو انکے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جایئں وارث مقرر کئے ہیں۔ اور جن لوگوں کے ساتھ تمہارے سیدھے ہاتھ کے عہد ہیں، ان کو ان کا حصہ دو۔ بیشک اللّٰہ تمام چیزوں کے اوپر گواہ ہے۔
Quran [4:33]

 
جیسے کہ علامہ طالب جوہری کہتے ہیں،  قرآن ہمیں جایئداد کی تقسیم کا ایک تفصیلی بیان دیتا ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو کتنا حصہ دیں اور بیٹوں کو کتنا، کسی ذاتی دخل اندازی کے بغیر۔ جب قرآن نے ہمیں ہماری ذاتی جایئداد کے ہی اپنی مرضی سے ورثاء مقرر کرنے کا حق نہیں دیا تو ہم خود کیسے اللّٰہ کے مذہب اور مُحمّد (ص) کی شریعت کے وارث مقرر کرسکتے ہیں۔

 

چناچہ شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت ایک خدائ طور پر چنا گیا رتبہ ہے۔ اوپر زیرِ بحث ائے گئے قرآنی دلائل پہ واپس آتے ہوئے میں آپ کو پھر یاد کرادوں کہ ابراہیم (ع) کی نسل کے امام ظالم اور نا انصاف نہیں ہونگے، اور انسانوں کے منتخب کردہ بالکل نہیں ہونگے۔
 

اور اللّٰہ کے رسول (ص) نے اس رتبے کی طرف اشارہ کیا ہے جب آپ (ص) نے علی (ع) کے بارے میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ سے یہ دعا مانگی، اے اللّٰہ، حق کو اس طرف موڑ دیں جس طرف علی (ع) مڑے، اور آپ (ص) نے یہ نہیں کہا کہ اسکو اس طرف موڑ دیں جس طرف حق مڑے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Shah Waliyullah, At-Tafhimatu l-Iahiyah Volume 2 page 22

بالاخر نبی (ص) کے ورثاء تین طرح کے ہیں، وہ جن کے پاس حکمت (دانشمندی، عقلمندی) ہے،  عصمت (معصومیت) ہے، اور قطبیاتِ باطنیہ ہے، یہی آپ (ص) کے اہلِ بیت ہیں اور بہت خاص لوگ ہیں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔ 
At-Tafhimatu l-Iahiyah Volume 2 page 14 

 امام مہدی کا تصور اسلام کے ہر فقہ میں ھے، تقریباّ۔ میں صرف اپنے سنی بھائیوں سے سوال کروں گا۔ ان کا اپنا جواب شاید ان کو یہ مضمون سمجھانے میں بہتر مدد کر سکے۔

 

امام مہدی میں اور مسجد کے امام میں، ان دونوں کے اختیارات میں کیا فرق ھو گا؟ کیا امام مہدی کے حکم کے خلاف جانا گناہ ھو گا؟ اگر ہاں تو کیا ان پر وحی اترے گی جو ان کے حکم کو خدا کا حکم قرار دے گا؟ اگر نہیں، تو کیا امام مہدی کا حکم ماننا نا ماننا برابر ھو گا؟



امام مہدی کو امام کون چنے گا؟ کیا ان کو لوگ وٹ دے کر بتائے گے کہ وہ امام مہدی ھیں جن کو خدانے چنا ھے؟ یا ان پر وحی نازل ھو گی جس سے ان کو معلوم ھو گا کہ وہ ہی امام ھیں۔



امام مہدی کیا پہلے امام ھوںگے یا ان سے پہلے اور بھی خدا کے چنے ھوئے امام گزر چکے ھوں گے جن کی پیروی خدا کی پیروی کے برابر ھو گے۔



سنی مانتے ھیں کہ امام مہدی کا حکم فرض ھوگا۔ شاید ان سب سوالوں کے سچے جواب اس مضمون کو پختا کر سکتا ھے۔

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.