Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

درویشانہ صحابہ کی داستان

AboutThe following document is an urdu version of the article, "Myth of The Saintly Companions". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Shaazia Faiz [shaazia_faiz@hotmail.com]

 

انسان ہمیشہ سے ہر چیز کے بارے میں ، اس سے پہلے کہ اسکو اسکے بارے میں علم ہو، اپنی رائے قائم کرنے کے لئے جانا گیا ہے، یہ اسلئے کہ انسان متعصب ہے۔

 

اس سے پہلے کہ آپ اس پرچے کو صحابہء کرام کے خلاف کسی تحریک کا حصہ قرار دیدیں، میں آپکو بتانا چاہوں گا کہ میرا نام عمّار ہے، اور یہ آپ (ص) کے مشہور صاحب عمّار بن یاسر کے نام پر رکھا گیا ہے۔

 

نبی (ص) کے اصحاب سے نفرت شیعت کا حصہ نہیں ہے، بلکہ ہم آپ(ص) کے ان تمام اصحاب کو بہت عزیز رکھتے ہیں جو دوسروں کے اور انے ساتھ اچھے تھے۔
 

محمّد اللّٰہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپکے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں، آپ انہیں رکوع کرتے، سجدہ کرتے، اللّٰہ کا فضل اور رحمت تلاش کرتا پائیں گے، انکے چہروں پر سجدے کا نشان ہے، یہی انکے مثال تورات میں ہے اور یہی انکی مثال انجیل میں ہے، جیسے ایک بیج میں سے کلی نکلتی ہے، پھر وہ مضبوط ہوجاتی ہے اور اپنے تنے پر سیدھی ہو جاتی ہے، وہ کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے تاکہ وہ ایمان والوں کے ذریعے کافروں کو غصہ دلایئں، اللّٰہ نے ان سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے ہیں، بخشش اور اجر کا وعدہ کر رکھا ہے۔
Quran [48:29]


 اصحاب رسول(ص) کے ساتھ شیعت کا برتاو  ضرور پڑھیے گا۔



 نبی (ص) کے اصحاب عام انسانوں کی طرح غلطیاں کرنے کے قابل تھے، نہ تو وہ خدائ ہستیاں تھے اور نہ خدا کی طرف سے خصوصاً بھیجے گئے تھے۔ آپ (ص) کے اصحاب جو آپ (ص) کے اور آپ(ص) کے مشن  کی ساتھ مخلص تھے، جنہوں نے راہِ اسلام میں محنت کی اور قربانیاں دیں، جنہوں نے اپنے اور دوسروں کیساتھ، نبی (ص) کے وصال کے بعد اور پہلے، بھلا کیا، پُرعدل حساب کتاب کے بعد جنّت میں داخل کئے جائنگے۔ اور ایسے اصحاب کی ہم بہت عزت و تکریم کرتے  ہیں ۔

 

مگر تمام اصحاب سے عزت و عقیدت روا رکھنا، ان تمام کی پاکیزگی اور سچّائ کا دعویٰ کرنا ناصرف جھوٹ ہوگا بلکہ قرآن و تاریخ کو جھٹلانا بھی۔  جب اللّٰہ خود نبی (ص) کے تمام اصحاب کی بخشش کا وعدہ نہیں کرتا ، سوائے انکے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں، تو ہم ان سب کو متّقی قرار دینے والے کون ہوتے ہیں ؟

 

 اگر نبی (ص) کے تمام اصحاب معصوم تھے تو پھر یہ کن لوگوں کو قرآن جہاد کے بارے میں تنگدلانہ روّیہ رکھنے پر ملامت فرماتا ہے،
 

ہاں ! وہ تم ہو جنہیں اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں بعض بخل کرتے ہیں۔ مگر جو بخل کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی بخل کرتا ہے ۔ اور اللّٰہ بےنیاز ہے اور تم نادار ہو۔ اور اگر تم منہ موڑ جاؤ گے تو وہ تمہارے علاوہ کسی اور قوم کو بدل کر لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہ ہونگے۔   
Quran [47:38]


 اس ہی طرح، اگر تمام اصحاب متقی ہوتے، تو کیا آپ مجھے تاریخ میں سے ایسی مثال دکھا سکتے ہیں جس کی رو سے نبی (ص) یا پہلے چار خلفاء کے زمانے میں کسی شخص کو بھی اسلامی طور پر سزا نہ دی گئ ہو، کیوںکہ اس زمانے میں مسلمانوں میں سوائے صحابہ کے کوئ نہ تھا۔ اگر ان کے زمانے میں جوری ہوی، قتل ہوا، زنہ ہوا، اور رسول(ص) یا خلفا نے حد جاری کی، اس کا مطلب یہی ہے کہ گناہ کرنے والا مسلم صحابہ میں سے ہی تھا، یا کسی صحابہ کی اولاد جن کو طابائین کہتے ہیں۔

 

 اصل شخصیت نبی(ص) کی ہے۔ آپ (ص) اللّٰہ کے پاک و معصوم پیغمبر ہیں ، اسلام کی اساس ہیں۔اسلام کے دائرے میں آنے کے لئے، آپکو اللّٰہ کے علاوہ صرف نبی(ص) کی نبوّت کی گواہی دینی ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ(ص) کے قریب موجود لوگ اسلام میں کوئ حیثیت نہیں رکھتے۔ جبتک وہ اللّٰہ کے اصولوں پر قائم رہیں اور نبی(ص) کی اطاعت کرتے رہیں، انکو اللّٰہ پاک اجر سے نوازے گا۔

 

مگر جہاں انہوں نے نبی(ص) کی نافرمانی کی یا اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ اپنے اعمال کے خود ذمّہ دار ہونگے۔ آپ مشّرف کے قائم کئے نظام کی تعریف کرسکتے ہیں، اگر آپکو کچھ ناپسند ہو تو اس پر تنقید کرسکتے ہیں، کیونکہ مسّرف کوئ خدائ ہستی نہیں بلکہ لوگوں کا یا خود کا منتخب کردہ ہے۔

    

اسلام عوام کے منتخ کردہ لوگوں کے بارے میں نہیں ہے، وہ آپ کے ایمان کا حصہ نہیں ہیں۔ اسلام تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں اللّٰہ نے خود منتخب کیا، یا نبی(ص) نے ! کیا اللہ نے کسی کا انتخاب کیا ہےَ؟ 
 

اللّٰہ نے آدم، نوح اور آل ِابراہیم اور آل ِعمران کو سارے جہاں میں سے چن لیا تھا۔
Quran [3:33]


محمّد(ص) اور آلِ محمّد (ص) ابراہیم(ع) کی نسل سے ہیں۔ اللّٰہ نے آپ کو منتخب کیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہم درود بھیجتے ہیں۔ نبی(ص) کے اہل ِ بیت وہ لوگ ہیں جن سے محبت کرنے کا حکم ہمیں قرآن خود دیتا ہے، جو تمام رِجز سے پاک کر دئے گئے تھے، اور جو مباہلہ پر لے جائے گئے۔ ان لوگوں سے محبت ہمارے دین کا حصہ ہے، اور ان لوگوں سے نفرت رکھنا ہمیں اللّٰہ کے ناپسندیدہ لوگوں میں لے جائے گا، چونکہ اللّٰہ نے خود ان لوگوں کو منتخب کیا ہے۔  
 

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکیزہ قرار دیتے ہیں؟ نہیں، اللّٰہ جسے چاہتا ہے پاکیزہ کردیتا ہے۔ اور ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
Quran [4:49]


 کچھ لوگ خود کو پاکیزہ قرار دیتے ہیں، کچھ دوسروں کو، مگر اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ پاک تو صرف وہ ہے جس کو اللّٰہ نے پاک کہا، یہ ہی لوگ ہیں جن کے کہنے نہ کہنے، چاہنے نہ چاہنے سے فرق پڑتا ہے۔
 

۔۔۔۔ اللّٰہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے، اے اس گھر کے رہنے والوں، ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔
Quran [33:33]


جبکہ باقی لوگ ہمارے عقیدت  و احترام کے جب تک مستحق ہیں جبتک کہ وہ رسول (ص) اور قرآن کی خلاف ورزی نہ کریں۔

 

مجھے، ذاتی طور پر، تمام صحابہ سے محبت اور احترام کرنے پر کوئ اعتراض نہ ہوتا اگر تمام صحابہ آپس میں بغیر کسی جھگڑے کے پیار و محبت سے رہے ہوتے۔

 

میں کیسے مان لوں کہ تمام صحابہ، نبی (ص) کے وصال سے پہلے اور بعد میں، معصوم درویشوں کے جیسے تھے، جبکہ تاریخ میں خود صحابہ کے آپس میں ایک دوسرے سے ہی کئ جھگڑے محفوظ ہیں۔  

 

اور ناصرف صحابہ کے آپس میں، بلکہ نبی کریم (ص) کی ازواج کے درمیان، اور نبی (ص) کے صحابہ اور  اہلِ بییت کے درمیان جھگڑے بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ 

 

 میں یہاں ان تاریخی واقعات پر بھی روشنی ڈالونگا جنکے بارے میں سنیّوں کو علم ہے مگر وہ صدیوں سے انکو نظر انداز کرتے آرہے ہیں، محض اس لئے کہ وہ صحابہ کا آپس میں پیار و محبت ثابت کرسکیں۔

 

عفّک کے واقعے سے شروع کرتے ہوئے، جب عائشہ پر زنا کا الزام لگایا گیا، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ شیعوں کی عائشہ کی ناپسندیدگی کی وجہ عائشہ کا علی(ع) کے ساتھ روّیہ ہے۔ کوئ شیعہ عائشہ پر زنا کا الزام نہیں لگاتا، کیونکہ قرآن کی رائے تمام دوسری آراء سے برتر ہے۔

 

جو لوگ بہتان بنا لائے وہ تمہارا اپنا ہی ایک ٹولہ ہے ۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو۔ نہیں، وہ تمہارے لئے بھلا ہے۔ ان میں سے ہر شخص کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس نے کمایا، اور ان میں سے جس نے اس میں بڑا حصہ لیا اسے بڑا اعزاب ہو گا۔  جب تم نے یہ بات سنی ، تو کیوں مومن مردوں اور عورتوں نے آپس میں نیک گمان نہ کیا، اور کیوں نہ( کہا کہ یہ صاف بہتان ہے)۔  وہ کیوں اس پر چار گواہ نا لاے، پھر جب وہ گواہ نا لاے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ اور اگر تم پر دنیا اور اخرت میں اللہ کی رحمت نا ہوتی تو جس بات کا تم نے چرچا کیا تھا اس کے سبب تم پر بڑا اعزاب اجاتا۔ جب تم اسے اپنی زبان پر لاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم نا تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھتے تھے حالاںکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی۔ اور جب تم نے اسے سنا تو کیوں نا کہا ”ہمارے لئے روا نہیں کہ ہم اس پر بات کریں، تو پاک ہے یہ تو بڑا بہتان ہے۔  اللّٰہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم پھر کبھی ایسے نہ کرو، اگر تم مومن ہو۔
Quran [24:11-17]

یشک جو لوگ بہتان بنا لائے وہ تمہارا اپنا ہی ایک ٹولہ ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ایک یا دو لوگ نہیں بلکہ ایک پورا گروہ تھا۔ اس گروہ میں سب سے اوّل عبدُاللّٰہ ابن اُبے بن سلل تھا، منافقوں کا سردار، جس نے یہ الزام تراشا اور لوگوں میں چپکے چپکے پھیلا دیا، یہانتک کہ کچھ مسلمان اس پر یقین لے آئے، اور دوسرے سوچنے لگے کہ شاید یہ سچ ہو اور اسکے بارے میں بات کرنے لگے۔ یہ معاملہ اس طرح تقریباً ایک ماہ تک رہا، جب تک  وحی نازل ہوئ۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔

Tafseer Ibn Kathir, Tafseer of Surah 24, Verse 11


 
عائشہ کے خلاف یہ الزام بیشک ایک منافق کا تراشا ہوا تھا، لیکن اس پر یقین کرنے اور اسکو پھیلانے والے صحابہ ہی کا ایک گروہ تھا، جن کو انکے شیطانی اعمال پر سختی سے ملامت کی گئ اور مستقبل کے لئے متنبہ کیا گیا۔

 

اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ گناہگار انسانوں جیسے تھے، جو گناہ کر سکتے تھے اور کرتے تھے، اور نبی(ص) کی نافرمانی کی صورت میں سخت سزا کے مستحق ہونگے ۔

 

صحابہ کے درمیان ناصرف چھوٹی موٹی رنجشیں بلکہ آپس میں نفرت بھی رسول(ص) کے زمانے میں ہوتی تھی، جسکا ذکر میں بڑے جھگڑوں سے پہلے کرونگا۔

 

سنّی صحیح میں ابوبکر اور عمر کے درمیان ایک جھگڑے کا ذکر ہے، جس کی وجہ سے انکے تمام پچھلے اعمال تباہ ہونے ہی والے تھے ، مگر پھر انکو معافی دے دی گئ۔   
 

اے ایمان والوں اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو. یہ کہا گیا کہ یہ آیت ابوبکر اور عمر کے بارے میں نازل ہوئ۔ ال بخاری نے محفوظ کیا کہ ابن ابی ملکہ نے کہا دو رُشداء تقریباً تباہ ہو ہی گئے تھے جب انہوں نے نبی(ص)، جو کہ بنی تمم کے وفد کا استقبال کر رہے تھے، کے سامنے اونچی کریں۔ وہ دونوں دو مختلف افراد کو بنو مجاشہ کا رکن بنانا چاہتے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا کہ تم صرف میری نفی کرنا چاہتے ہو، جسکا عمر نے انکار کیا۔ انکی آوازیں اونچی ہو گئں، یہانتک کہ یہ آیت نازل ہو گئ، اے ایمان والوں اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو، اور ان سے بات نہ کرو جیسے تم آپس میں اونچی آواز میں بات کرتے ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جایئں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے۔ عبداللّٰہ بن از زبیر کہتے ہیں کہ اسکے بعد عمر کی آواز نبی (ص) سے بات کرتے ہوئے اتنی ہلکی ہوتی کہ آپ(ص) کو عمر سے دہرانے کے لئے کہنا پڑتا، تاکہ آپ(ص) کو انکی بات سمجھ آجائے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafseer Ibn Kathir, Tafseer of Surah 49, Verse 2


 
 سنی صحاح میں ایک اور واقعہ درج ھے جس میں رسول(ص) کے دو اصحاب اپس میں لڑ پڑے اور گالیاں دینے تک کی نوبت آگئ۔ 

ال براء نے روایت کی کہ نبی(ص) نے حسن سے کہا ’انکو (کفار) اپنی نظموں کے ذریعے برا بھلا کہو، اور جبریئل تمہارے ساتھ ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 5, Book 59, Number 449

۔ ۔ ۔ ۔ عروہ روایت کرتے ہیں کہ میں حسن ابن ثابت کو عائشہ کے سامنے برا کہا جب اس نے کہا، اسکو برا نہ کہو، کیونکہ یہ رسول(ص) کو اپنی نظموں کے ذریعے بچاتا تھا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 4, Book 56, Number 731


نبی(ص) کے وصال سے پہلے، آپ(ص) نے حکم دیا کہ اسامہ بن زید کی قیادت میں ایک لشکر کو شام بھیجا جائے۔ آپ(ص) کے سامنے ہی کچھ صحابہ نے شروع میں ناصرف اسکی مخالفت کی بلکہ اسامہ کی سربراہی  کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسا انہوں نے اسامہ کے والد زید کی قیادت کو بنایا تھا۔   
 

عبداللّٰہ بن عمر سے روایت ہے کہ جب اللّٰہ کے نبی (ص) نے اسامہ کو لشکر کی قیادت دی تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ نبی(ص) نے فرمایا، اگر تم لوگ ابھی اس کی قیادت پر تنقید کر رہے ہو تو تم لوگ پہلے اسکے باپ زید کی قیادت پر تنقید کرتے تھے۔ اللّٰہ کی قسم، زید سربراہی کا حقدار تھا، اور اب اسکا بیٹا، اسامہ اسکے بعد میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 5, Book 59, Hadith 745


 اسکے بعد ہم بات کرتے ہیں صحابہ کے درمیان ایک اہم ترین جھگڑے کی ، جو کہ نبی(ص) کے انتقال کے وقت ہوا، اسکو کاغذ اور قلم کا حادثہ یا جمعرات کا المیہ بھی کہا جاتا ہے۔
 

ابن عباس سے روایت ہے کہ اللّٰہ کے رسول(ص) نے کہا، آؤ تاکہ میں
 تمہارے لئے ایک چیز لکھ دوں ، اسکے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس پر عمر نے کہا کہ نبی(ص) بہت تکلیف میں ہیں، ہمارے ساتھ قرآن ہے، لہٰذا ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ گھر میں موجود لوگوں میں اختلاف ہوا۔ کچھ کا خیال تھا کہ کاغذ اور قلم لا کر نبی(ص) کی نصیحت لکھ لی جائے، جبکہ دوسروں کا خیال عمر کے جیسا تھا۔ جب وہ نبی(ص) کے سامنے ہی جھگڑنے لگے تو رسول(ص) نے سب کو باہر جانے کا حکم دے دیا۔
عبیداللّٰہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ انکے جھگڑے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہو گیا۔ نبی(ص) انکے لئے اپنی نصیحت نہ لکھوا سکے۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim, Book 13, Hadith 4016


 صحابہ کے درمیان بڑے اور ایمان ہلا دینے والے جھگڑوں کی طرف بڑھنے سے پہلے میں ازواجِ رسول(ص) کے آپس میں جھگڑوں پر روشنی ڈالنا چاہونگا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے حسد کرتی تھیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتی تھیں اور آپس میں لڑائ کرتی تھیں۔ 
 

ابنِ عون نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عائشہ نے کہا نبی(ص) ہمارے پاس آئے جبکہ زینب بنت حجش ہمارے ساتھ تھیں۔ آپ(ص) اپنے ہاتھ سے کچھ کرنا شروع ہو گئے۔ میں نے آپ(ص) کو زینب کے بارے میں اشارہ کیا تو آپ رک گئے۔ زینب آیئں اور عائشہ سے جھگڑنے لگیں۔ اس نے انکو روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکیں۔ تب نبی(ص) نے عائشہ سے فرمایا، اسکو جواب دو، تو عائشہ نے زینب کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اس پر حاوی ہو گیئں۔۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sunan Abu Dawud, Book 41, Number 4880


ناصرف یہ بلکہ وہ اکثر نبی(ص) کے خلاف بھی سازش کرتی تھیں۔
 

عبید بن عمر سے روایت ہے کہ عائشہ نے کہا، نبی کریم(ص) زینب بنت حجش کے پاس زیادہ وقت گزارا کرتے تھے اور اسکے گھر ایک خاص قسم کا شہد بھی پیتے تھے۔ لہٰذا حفصہ اور میں نے فیصلہ کیا کہ نبی(ص) ہم میں سے جس کے پاس بھی آئے تو ہم ان سے کہیں گے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ لہٰذا نبی(ص) انمیں سے کسی ایک کے گھر گئے اور انہوں نے نبی(ص) سے یہی کہا، تو نبی(ص) نے فرمایا کہ میں نے زینب کے گھر شہد کھایا ہے، مگر اب کبھی نہیں کھاؤنگا۔ تو پھر یہ آیت نازل ہوئ کہ اے نبی(ص) آپ کیوں خود پر ایک ایسی چیز حرام کرتے ہیں جو اللّٰہ نے حلال قرار دی ہے۔)

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari Volume 7, Book 63, Number 192
Sahih Bukhari Volume 7, Book 63, Number 193
Sahih Muslim Book 009, Number 3496


 اب آتے ہیں  بڑے جھگڑوں کی طرف۔

 

خالد بن ولید، اللّٰہ کی جعلی  تلوار ، نے احد کی جنگ میں قریش کی طرف سے نبی(ص) سے لڑائ کی، اور پھر معاہدہ حدیبیہ میں اسلام قبول کرلیا۔

 

  فتح مکہ کے موقعے پر
 

جب خالد بنو جدھیمہ کی طرف لشکر لے کر گیا تو اس نے انکے اسلام قبول کر لینے کے بارے میں جاننے کے بعد انکو ہتھیار پھینکنے کا کہہ دیا اور بعد میں انمیں سے کچھ کو قتل کردیا۔ جب نبی(ص) نے خالد کی اس حرکت کے بارے میں سنا تو خدا کی بارگاہ میں فرما دیا کہ آپ(ص) کا خالد کی اس حرکت مین کوئ ہاتھ نہیں، اور علی ابن ابو طالب(ع) کو انکے ورثاء کو ہرجانہ دینے کے لئے بھیجا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
al-Tabari, Victory of Islam, translated by Michael Fishbein, Albany 1997, pp. 188 ff.


 خالد بن ولید اور اسکے عمر سے جھگڑے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے سقیفہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

 

نبی(ص) کے وصال کے ساتھ ہی خلافت کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا، کہ رسول(ص) کا سیاسی وارث کون ہو گا۔۔ انصار چاہتے تھے کہ نبی(ص) کے بعد ان سے خلیفہ بنایا جائے جبکہ مہاجرین کا دعویٰ تھا کہ چونکہ نبی(ص) خود کا تعلق مہاجرین سے تھا لہٰذا خلیفہ بھی قریش کا بنایا جائے۔ انصار نے مشورہ دیا کہ دو خلیفہ بنا دئے جایئں، تاکہ دونوں طرف کی بات پوری ہو جائے، لیکن مہاجرین نے انکار کردیا۔ یہ بحث اتنی طول اختیار کرگئ کہ دونوں گروہوں کے بیچ بدکلامی ہونے لگی۔ 
 

جب ابوبکر نے اپنی تقریر ختم کرلی تو ال حباب ابن ال مندھر کھڑے ہوئے اور انصار سے کہا، اپنے اختیارات دوسروں کو نہ دو، عوام تمہارے اختیار میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر مہاجرین کو کچھ معاملوں میں تم پر برتری ہے تو تم بھی بہت سے معاملات میں ان پر برتر ہو۔ تمہاری مدد سے اسلام اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ابھی ال حباب نیچے اترے ہی تھے کہ عمر آئے اور کہنے لگے کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے۔ خدا کی قسم عرب کبھی بھی تم کو اپنا سردار نہ مانیں گے کیونکہ نبی (ص) تم میں سے نہیں تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
عمر کے بعد ال حباب دوبارہ اوپر آئے اور انصار سے کہا، دیکھو، اپنی بات پر قائم رہو اور جو کچھ یہ شخص یا اسکے حامی کہہ گئے ہیں اس پر کوئ توّجہ نہ دو۔ یہ صرف تمہارے حقوق غضب کر لینا چاہتے ہیں، اگر یہ تمہاری نہ مانیں تو انکو اپنے شہر سے نکال دو اور مناسب خلیفہ چنو۔ تم سے زیادہ اسکا حقدار کون ہو گا ؟
 
جب ال حباب کا بیان ختم ہو گیا تو عمر نے اسے ڈانٹا۔ اس کی طرف سے بھی برے الفاظ کا استعمال ہوا، اور بات خراب ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر ابو عبیدہ بن جرّاح آگے بڑھے اور انصار کو سمجھایا، جس پر انصار نے انکار کردیا ۔ انصار سعد کو بعیت دینے کے لئے راضی ہو گئے مگر سعد کے قبیلے سے بشیر ابن امر کھڑاہوا اور کہنے لگا محمد(ص) قریش میں سے تھے اس لئے خلافت بھی قریش کا حق ہے۔ یہ سنتے ہی انصار میں پھوٹ پڑ گئ اور موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوے بشیر، عمر اور ابو عبیدہ نے ابو بکر کو بعیت دے دی۔ پھر بشیر کے قبیلے والے اگے بڑھے اور ابو بکر کو بعیت دینے لگے۔ افرا تفری اور ہجوم کے عالم میں سعد ابن عبیدہ لوگوں کے پیروں تلے اگے اور زخمی ہو گیا۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
al-Tabari, Ta'rikh, VI, 263
Peak of Eloquence, Footnotes of Sermon 67, The news of happenings at Saqifah


مہاجرین اور انصار کے بیچ سقیفہ کا جھگڑا،سعد ابن عبیدہ کے کچلے جانے سے، سقیفہ ہی میں سلجھا دیا گیا، جسکی وجہ سے یہ صحابی شدید زخمی ہوگئے۔
 

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم نے سعد یبن عبیدہ کے اوپر فتح پائ، تو ایک انصار نے کہا، تم نے سعد کو مار ڈالا۔ میں (عمر) نے جواب دیا، اللّٰہ نے سعد کو مار دیا ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim, Volume 8, Book 82, Number 817


 اگر سب صحابہ تاروں کی مانند ہیں تو میں کن کی پیروہ کروں؟ عمر کی یا سعد ابن عبیدہ کی؟

 

پھر بھی ابوبکر کے چناؤ کی، نبی (ص) کے قریبی رشتہداروں اور کچھ صحابہ، نے مخالفت کی تھی، یہ لوگ علی(ع) کے شیعہ کہلائے، اور انمیں عمّار بن یاسر، سلمان فارسی، مقداد، ابوذر غفّاری اور طلحہ جیسے لوگ شامل تھے۔
 

ابنِ عبّاس سے روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشک نبی (ص) کے وصال کے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ انصار کو ہم سے اختلاف ہے اور وہ بنی سعدہ کے تلے جمع ہیں۔ علی، زبیر، اور جو لوگ بھی انکے ساتھ تھے، ہماری مخالفت کر رہے تھے جبکہ مہاجرین ابوبکر کیساتھ جمع
ہو گئے۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 8, Book 82, Hadith 817


 جبکہ امام علی (ع) نے سیاسی خاموشی اختیار کر لی ، حضرت  فاطمہ (ع)، نبی (ص) کی بیٹی اوردل و جان، اور ابوبکر کے بیچ فدک کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ فاطمہ (ع) نے فدک کو اپنا حق ہونے کا دعویٰ کیا، جس کی شہادت مولیٰ علی (ع) نے بھی دی، اور جس کو ابوبکر نے جھٹلا دیا۔ لہٰذا جنابِ زہرہ (ع) نے ابوبکر سے قطع تعلق کرلیا۔
 

عائشہ امُّ المومنین سے روایت ہے کہ نبی (ص) کے وصال کے بعد فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے نبی (ص) کے مالِ فے میں سے اپنا حق مانگا، تو ابوبکر نے آپ (ع) سے کہا، نبی (ص) فرما گئے ہیں کہ ہماری کوئ میراث نہیں ہوتی، نبی جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ اس پر فاطمہ (ع)، نبی (ص) کی صاحبزادی غصہ ہو گئیں اور ابوبکر سے بات چیت ختم کردی، اور ایسا آپ (ع) کے وصال تک رہا۔ فاطمہ (ع) نبی(ص) کے وصال کے بعد چھہ ماہ تک زندہ اہیں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 4, Book 53, Hadith 325


 امام علی (ع) خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ عمر نے جو نکہ، نبی(ص) کے قرابتداروں کے خلیفہ بننے کے بارے میں،  سقیفہ میں سوال  اٹھایا تھا وہ امام علی (ع) پر زیادہ موزوں تھا، اگر خلیفہ قریش میں سے ہو گا کیوں کر رسول(ص) قریش میں سے تھے، تو پھر خلیفہ بنو ہاشم میں سے کیوں نہیں جب کہ رسول(ص) بن
و ہاشم میں سے تھے؟۔ سقیفہ اور فدک میں، اہلِ بیت کے خلافت و جایئداد کے حقوق غضب کر لینے کی وجہ سے، امام علی(ع) شیخین کو غلط سمجھتے تھے۔

 

غور کی بات یہ بھی ہے کہ  مولیٰ علی (ع)، شیرِ خدا، جن کی تلوار نے اسلام کو غزواتِ بدر، احد، خیبر اور خندق میں بچایا، نے شیخین یا عثمان کی حکمرانی کے زمانے میں کسی جنگ میں حصہ نہ لیا۔
 

خبردار! ابو قہافہ کے بیٹے نے خود کوخلیفہ کہلوایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ خلافت کی مناسبت سے میری حیثیت ایسی تھی جیسے کہ دھرے کا رشتہ چکی سے۔ ۔ سیلاب کا پانی مجھ سے نیچے کی طرف بہتا ہے اور پررندے مجھ سے اونچی اڑان نہیں بھر سکتے۔ میں نے خلافت کے سامنے ایک پردہ کھینچ دیا اور خود کو اس سے علیحدہ رکھا۔ پھر میں نے سوچا ایا مجھے مقابلہ کرنا چاہئے یا  صبر سے اس ظلم کے اندھیرے کوبرداشت کرنا چاہئے، جہاں جوانوں کو کمزور اور نئے آنے والوں کو کامل سمجھا جاتا ہے، اور حقیقی مومن ایک دباؤ میں زندگی گزارتا ہے، یہاں تک کہ وہ خدا سے جا ملے۔ میں نے جانا کہ برداشت کرنا زیادہ دانشمندانہ عمل ہوگا۔ لہٰذا مین نے صبر کرلیا اگرچہ یہ میری آنکھوں میں کھٹکتا اور گلے میں اٹکتا تھا۔ میں اپنی میراث کا یہ شکار دیکھتا رہا جب تک کہ پہلا والا چلا گیا، مگر اپنی خلافت آپ ہی ابن الخطاب کو دے گیا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Peak of Eloquence, Sermon 3, Sermon of ash-Shiqshiqiyyah

ظہری کہتے پہیں کہ مالک بن عوس سے روایت ہے کہ ابوبکر نے کہا کہ نبی (ص) فرما گئے ہیں کہ ہم نبیوں کی کوئ میراث نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ دونوں (علی اور عباس) نے اس کو جھوٹا، گناہگار، مکّار اور بےایمان سمجھا۔ اور اللّٰہ جانتا ہے کہ وہ سچا، ایماندار ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکار تھا۔ جب ابوبکر گزر گیا اور میں (عمر) نبی (ص) اور ابوبکر کا وارث بن گیا ہوں، تو آپ (علی) مجھے جھوٹا، گناہگار، مکّار اور بےایمان سمجھتے ہو۔ اور اللّٰہ جانتا ہے کہ میں سچا، ایماندار ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکار ہوں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim , Book 19, Number 4349


 اگرچہ امام علی (ع) نے اسلام کی بقا کی خاطر  سیاسی خاموشی اختیار کر لی تھی، آپ (ع) عمر کو اس کے پوچھنے پر مشورے دیا کرتے تھے۔ اسکا مطلب بہرحال یہ نہیں تھا کہ آپ (ع) نے عمر کی خلافت کو قبول کرلیا تھا یا اس سے محبت کرتے تھے یا اسکے ہمنوا تھے۔ مولیٰ کی خلافت کے مسئلے پر خاموشی اسلام کے لئے تھی، اور آپ کا عمر کو مشورے دینا بھی اسلام ہی کے لئے تھا۔

 

 اسکی مثال دیکھانے کے لئے ہم بات کرتے ہیں مصر کے بادشاہ کی، جو مومن نہ تھا، مگر اس نے پیغمبر یوسف (ع) سے مدد مانگی اور آپ (ع) لوگوں کی بھلائ کی خاطر اسکی مدد کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ عمر لا ایمان تھا۔ اس بات کا فیصلہ اللّہ کے ہاتھ میں ہے، وہ دلوں کے حال جانتا ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مولیٰ (ع) کے عمر کو سیاسی مشورے دینے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ عمر کو ایماندار سمجھتے تھے، بلکہ دراصل اسکے پیچھے اسلام کی بھلائ کارفرما تھی۔
 

اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے اپنے لئے خاص کرلوں۔ پھر جب اس نے اس سے بات کی تو اس نے کہا ، آج سے تو ہمارا معتمد مصاحب ہے۔
Quran [12:54]

بادشاہ، اسکے درباری، شہزادے، افسران اور اسکے امراء سب ہی اس وقت تک حضرت یوسف (ع) کی اصل حیثیت پہچان چکے تھے اور آپ (ع) کی زندگی کی پچھلی دہائ کے واقعات میں آپ (ع) کی نیکی میں برتری بھی خود ملاحظہ کر چکے تھے۔ آپ (ع) نے ثابت کردیا تھا کہ دیانتداری، تقویٰ، صبر و استقلال، سخاوت، دانشمندی اور سمجھداری میں آپ (ع) کا کوئ ثانی نہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ صرف آپ (ع) ہی کو زمین کے وسائل کا صحیح استعمال آتا تھا اور اس بار
ے میں قابلِ بھروسہ تھے۔
چناچہ جیسے ہی آپ (ع) نے آمادگی ظاہر کی، انہوں نے آپ (ع) کو اسکا انچارج بنا دیا۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafheem ul Quran, By Abul Ala Maududi, Tafseer of Surah 12, verse 55


 
امام علی (ع) کی دیانتداری، تقویٰ، صبر و استقلال، نظم و ضبط،  سخاوت، ذہانت و دانشمندی اور سمجھداری تمام دوسروں سے زیادہ تھی۔  آپ (ع)کی عمر کی مدد کو آمادگی آپ (ع) کے ان اوصاف کی وجہ سے تھی۔

 

اب دوبارہ خالد بن ولید پر آتے ہیں۔ مالک بن نویرہ کو رسول (ص) نے محصول یا ٹیکس وصول کرنے والا مقرر کیا تھا، وہ نبی (ص) کے وصال کے بعد پلٹ گئے تھے یا نہیں اس بارے میں شیعوں اور سنّیوں میں اختلاف ہے۔ ابوبکر کی حکمرانی کے دور میں خالد بن ولید کو مالک سے بات کرنے بھیجا گیا۔ اس بارے میں سنّی نظریہ یہ ہے
 

مالک کو قید کرنے کے بعد خالد نے اس سے اسکے جرائم کے بارے میں پوچھا۔ بقول خالد کے مالک نے کہا تمہارے آقا نے یہ کہا، تمہارے آقانے یہ کہا۔ خالد سمجھ گیا کہ یہ مالک کی خود کو سزا سے ہر صورت بچانے کے لئے ایک کھلی کوشش ہے۔ اب چونکہ خالد کے پاس مالک کے نبی (ص) کے وصال کی خبر کے بعد محصول کے روپے سجّہ کے ساتھ تقسیم کرنے کے صاف شواہد تھے، لہٰذا اس نے مالک کو مرتد قرار دیکر اسکے قتل کا حکم دیدیا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
al-Balazuri, book no 1, page 107


 مالک کی بیوی، لیلیٰ بنت المحنل، نبی (ص) کی خاتون صحابی تھی اور عرب کی خوبصورت ترین خاتون سمجھی جاتی تھی۔ شیعوں کا دعویٰ ہے کہ خالد نے اسی رات جب اس نے مالک کو قتل کیا لیلیٰ کیساتھ زنا بالجبر کیا، جبکہ سنیّوں کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس رات لیلیٰ سے نکاح کیا۔
 

خالد نے اسی رات مالک کی بیوہ ، لیلیٰ بنت المحنل، جو کہ اس دور کی خوبصورت ترین عرب خواتین میں شامل تھی، سے نکاح کیا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tabari: Vol. 2, Page 5


 سنّی نظریہ ہے کہ خالد نے مالک کو قتل کر کے اسی رات اسکی بیوہ سے نکاح کر لیا تھا اور یہ زنا نہیں تھا، اس کو ماننا میرے لئے مشکل نہیں ہے اگر مجھے دو سوالات کے جواب دیدئے جایئں۔ میں کوئ عالم نہیں، مگر میں نے قرآن میں یہ ضرور پڑھا ہے
 

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جایئں اور بیویاں چھوڑ جایئں تو وہ چار ماہ اور دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ، پھر جب وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو تم پر اس میں کوئ گناہ نہیں جو وہ اپنے دستور کے مطابق کر لیں ، اور اللّٰہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
Quran [2:234]

  1. ایک بیوہ جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے شوہر کو قتل ہوتے دیکھا، یا اس کی موت کی خبر سنی ہو،میرا دعویٰ ہے کہ وہ دلی رضامندی سے اس ہی روز دوسری شادی نہیں کریگی  کیونکر شادی نام ہی دلی وابستگی اور پیار کے بندھن کا ہے۔

  2. ایک بیوہ کی عدّت کی مدّت چار ماہ دس دن ہے، تقریباً ایک سو تیس دن۔ وہ چاہے بھی تو اس سے پہلے دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔

 

لہٰذا پہلی بات تو یہ کہ یہ نکاح خالد کی آرزو ہوگی نہ کہ اس چند گھنٹوں کی غمزدہ بیوہ کی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ لیلیٰ کی خواہش تھی بھی، تب بھی یہ نکاح شرعی نہ ہوا بلکہ زنا ہوا کیونکہ عدّت پوری نہیں کی گئ۔ اور اگر یہ زبردستی کی گئ تھی تو یہ سراسر زنا بالجبر ہے، یہ اللّٰہ کی کیسی تلوار ہے جس سے قوم کی بیٹیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں۔

 

نبی (ص) کے دوسرے صحابہ، بشمول عمر کے، اس ظلم کے شاہد تھے اور انہوں نے اس پر احتجاج بھی کیا۔ یہ شادی بعد میں اختلاف کا باعث بن گئ، کیونکہ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ مالک مسلمان تھا اور خالد نے لیلیٰ سے شادی کرنے کے لئے اسکو مروایا تھا۔ اس گروہ میں خالد کا اپنا قریبی رشتہ دار عمر ال ختاب شامل تھا۔ خالد کو حکمرانِ وقت، ابوبکر نے اپنے پاس بلا کر اس معاملے میں پوچھ گچھ کی اور اسکو بےقصور ثابت کیا، بہرحال اسکو لیلیٰ سے شادی پر ملامت ضرور کی۔ اور چونکہ پھر بھی غلطی کی گنجائش تھی، لہٰذا ابوبکر نے مالک کے رشتہداروں کو خون بہا (قساس) ادا کرنے کی
 تاکید کی۔
 

عمر مدینے میں بدنامی اور رسوائ کی وجہ سے اتنا غصے میں اگیا تھا کہ اس نے ابوبکر سے خالد کو فوراً معطل کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ خالد پر دو مقدمے چلائے جایئں، ایک قتل کا دوسرا زنا بالجبر کا۔ اسلامی قانون کے مطابق خالد کو سنگسار کیا جانا چاہئے تھا۔ مگر ابوبکر نے خالد کو تحفظ دیا اور کہا کہ اس سے محض فیصلہ کرنے میں ایک غلطی ہو گئ تھی۔

A
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Restatement of the History of Islam and Muslims, Ali Razwy, Chapter 55


 شاید یہی وجہ تھی کہ عمر نے حاکم بننے کے بعد خالد کو اسکے عہدے سے ہٹا کر اسکی جگہ ابو عبیدہ ابن الجرّاح کو فوج کا امیر مقرر کر دیا۔ بعد میں عمر نے خالد کو مکمل طور پر ہی فوج سے خارج کردیا۔ اسکی وجوہات کیا تھیں، اس بارے میں شیعوں اور سنیّوں کی مختلف آراء ہیں، اور میں یہاں اس بارے میں بات نہیں کرونگا۔

 

عمر کے قتل کے بعد عثمان کو خلافت دی گئ۔ اس دور میں معاشی کشمکش اور دولت کی تقسیم میں بددیانتی نے عرب کے مسلمانوں میں ایک بےآرامی پھیلا دی، اور کوئ بھی حالات سے خوش نہ تھا۔ عمار بن یاسر، عبداللّٰہ ابن مسعود اور ابوذر غفّاری جیسے صحابہ پر تشدد کیا گیا، انکو پریشان کیا گیا اور ملک بدر کردیا گیا۔ 

 

اے ابوذر، تم نے اللّٰہ کے نام کی خاطر غصہ دکھایا لہٰذا تم اس ہی ذات سے بھلائ کی امید رکھو جس کے لئے تم نے غصہ کیا۔ لوگ تم سے دنیاوی وجوہات کی وجہ سے خوفزدہ ہوے جبکہ تم اپنے ایمان کی وجہ سے ان سے ڈر رہے تھے۔ انکے پاس انکے خوف کی وجہ کو رہنے دو اور تم اپنی وجہ لے کر ان سے الگ ہو جاؤ۔ کتنی ضرورت ہے انکو اسکی جو تم ان سے الگ کر رہے ہو اور کتنے بےخبر ہیں وہ اس سے جو وہ جھٹلا رہے ہیں۔ تم کو جلد ہی پتا چل جائے گا کہ کون کل کو فائدہ پائے گا ۔۔۔۔۔۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Nahjul Balaga, Sermon 130, Delivered when Abu Dharr was exiled towards ar-Rabadhah

لہٰذا ابوذر کی بےعزتی، ذلّت اور شہر بدری کو وجہ سے بنی غفّار اور انکے قریبی قبائل ، عبداللّٰہ ابن مسعود پر بے رحم تشدد کی وجہ سے بنو حبائل اور انکے نزدیکی قبائل، عمار ابن یاسر کی پسلیاں توڑ ڈالنے کی وجہ سے بنی مخزوم اور بنو زوہراء ، اور محمد ابن ابی بکر کے قتل کی سازش کی وجہ سے بنو تیّم، ان سب کے دلوں میں نفرت کے طوفان موجود تھے۔  دوسرے شہروں کے مسلمان بھی عثمان کے افسران اور نمائندوں کے مظالم سے تنگ اچکے تھے۔ ۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Al-Baladhuri, Ansab, V, 98, 101


 امر بن العاص، طلحہ، زبیر اور عائشہ نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ عثمان بن عفّان کا کچھ عرصے بعد قتل ہوگیا۔ اسکے قاتل کون تھے ؟ مسلمان خود ! جو کہ نبی کریم (ص) کے صحابہ بھی تھے ۔۔۔

 

اس وقت معاویہ، عائشہ، طلحہ اور زبیر کہاں تھے جب عثمان کا گھر کئ روز بلکہ ہفتوں تک اسکے قاتلوں کے گھیرے میں رہا تھا ۔۔۔ جمل اور سفّین کے حق میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ جنگیں عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لڑی گیئں، اگر یہ ایسے ہی عثمان کے خیرخواہ تھے تو یہ اسکی مدد کو اسوقت کیوں نہ آئے جب اسکو انکی ضرورت تھی۔۔۔
 

جب لوگوں نے عثمان کی حرکتیں دیکھیں، انہوں نے نبی (ص) کے دوسرے صحابہ جو عرب کے دوسرے صوبوں میں تھے کو خطوط لکھے، تم لوگ اللّٰہ کی راہ میں، محمّد کے دین کی خاطر دور دور گئے ہو، تمہاری غیر موجودگی میں محمد کا دین بھلا دیا اور خراب کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اسکو دوبارہ سے ویسا ہی کرنے واپس آجاؤ۔ لہٰذا وہ تمام خِطوں سے واپس آتے گئے یہانتک کہ انہوں نے خلیفہ (عثمان) کو قتل کردیا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
History of al-Tabari, English version, v15, p184


 لوگوں نے امام علی (ع) کو خلیفہ منتخب کیا۔ امام (ع) نے نیم
 رضامندی سے یہ عہدہ قبول کرلیا، اور جمل میں طلحہ ، زبیر اور عائشہ کی مخالفت کا سامنا کیا۔ میں جنگِ جمل کی تفصیلات میں نہیں جاؤنگا کیونکہ اس بارے میں پہلے بات ہو چکی ہے، لیکن یہ ایک جنگ تھی جس میں رسول (ص) کے صحابہ آپس مین لڑے۔

 

مولیٰ علی (ع) نے طلحہ اور زبیر کے بارے میں فرمایا،
 

خدا کی قسم، انہیں میرے اندر کچھ بھی نامعقول نیں لگا تھا، نہ ہی انہوں نے خود کے اور میرے بیچ انصاف کیا تھا۔ بیشک یہ ایک ایسے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جسکا انہوں نے خود انکار کیا تھا اور ایسا خون بہا مانگ رہے ہیں جو انہوں نے خود بہایا تھا۔ اگر میں نے انکا ساتھ دیا ہوتا تب بھی وہ اسمیں قصوروار ہوتے، اور اگر انہوں نے یہ کام میرے بغیر کیا تب بھی یہ مطالبہ انکے خلاف جاتا ہے۔ انکے انصاف کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ یہ خود اپنے خلاف مقدمہ درج کریں۔ میرے ساتھ میری عقل و فہم ہے، میں نے کبھی معاملات کو آپس میں نہیں ملایا، اور نہ ہی وہ مجھے ملتے جلتے نظر آئے ہیں۔ یقیناً یہ باغی گروہ ہے جسمیں قریب والا ہے (زبیر) ، بچھو کا زہر (عائشہ) ہے، اور شکوک ہیں جو حقائق کو ڈھک لیتے ہیں۔ مگر یہ معاملہ صاف ہے، اور باطل کو اسکی جڑوں سے ہلا دیا گیا ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
 Nahjul Balagah, Sermon 137, About Talha and Zubair


 جمل کے بارے میں بحث سے احتراض کرتے ہوئے، حقائق یہی ہیں کہ اسمیں عائشہ، طلحہ اور زبیر نے مولیٰ (ع) کے خلاف بغاوت کی۔

 

اب ہم کس صحابی کی پیروی کریں؟ نفس الرسول علی کی؟ یا ان کے مخالفین کی؟ کیا قاتل اور مقتول دونوں ہی خدا کے قریب ہیں؟

 

مولیٰ علی (ع) نے معاویہ لعنتی کے بارے میں فرمایا،  
 

خدا کی قسم، معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک نہیں ہے مگر وہ دھوکہ دیتا ہے اور شیطانی اعمال کرتا ہے۔ اگر مجھے دھوکہ دہی سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب سے زیادہ شاطر ہوتا ۔ مگر ہر دھوکہ ایک گناہ ہے اور ہر گناہ اللّٰہ کی نافرمانی ہے اور ہر دھوکیدار شخص کی ایک نشانی ہوگی جس سے وہ روزِ قیامت پہچانا جائے گا۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Nahjul Balagah, Sermon 200, Treason and treachery of Mu`awiyah and the fate of those guilty of treason


 اور امر بن العاص، جو کہ اگرچہ نی (ص) کا صحابی تھا مگر معاویہ کا ایک عیّار ساتھی بھی، کے بارے میں مولیٰ (ع) فرماتے ہین، 
 

میں النّبیغہ کے بیٹے پر حیران ہوں جو شام کے لوگوں میں کہتا پھرتا ہے کہ مین ایک مسخرہ ہوں اور میں شغل اور مستی میں لگا رہتا ہوں۔ اس نے غلط کہا اور گناہگار ہوا۔ خبردار، سب سے بری بات وہ ہے جو جھوٹی ہو۔ وہ بولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، وہ وعدہ کرتا ہے اور توڑ دیتا ہے۔ وہ بھیک مانگتا ہے اور مانگتا ہی رہتا ہے، اور جب کوئ اور اس سے مانگے تو وہ کنجوسی کرتا ہے۔ وہ عہد شکنی کرتا ہے اور رشتہ داروں کو نظر انداز کرتا ہے۔ وہ جنگ میں سپہ سالار بنتا ہے اور لوگوں کو ڈراتا ہے، مگر صرف تب تک جب تلواریں نہیں چلنا شروع ہوئ ہوتیں۔ جب ایسا موقعہ آتا ہے تو اسکی ترکیب اپنے دشمنوں پر ننگا پھرجانا ہوتی ہے۔ خدا کی قسم، اللّٰہ کی یاد نے مجھے شغل مستی سے دور رکھا ہوا ہے جبکہ اگلی دنیا سے لاتعلقی نے اسکو سچ بولنے سے روک رکھا ہے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Nahjul Balagah, Sermon 84, About Amr ibn al-aas


 لہٰذا مولیٰ علی (ع) دونوں معاویہ اور امر بن العاص کو نفرت کے قابل سمجھتے تھے۔ اب سفّن کی طرف واپس آتے ہیں، جسمیں عمّار بن یاسر نے شہادت پائ اور مولیٰ نے معاویہ اور امر بن العاص جیسے صحابہ کا مقابلہ کیا۔

 

سفین کی جنگ میں مولیٰ علی(ع) نے معاویہ کو اکیلے مولیٰ سے لڑنے کا پیغام دیا تا کہ باقی مسلمانوں کا خون نابہایا جاے۔ معاویہ جانتا تھا کہ قل ایمان کے سامنے انے کا کیا مطلب ہے اس لئے اس نے انکار کر دیا مگر امر کو بھیجا۔ مولیٰ علی (ع) کا پہلا وار امر برداشت نا کر سکا اور زمین پر گر پڑا ۔ علی(ع) کے روپ میں موت کو اتے دیکھ کر امر نے اپنے ازار کھولے اور ننگا ہو گیا۔ غیرت کی وجہ سے مولیٰ علی(ع) نے اپنا منہ موڑ لیا جس دوران امر خیمیں میں واپس بھاگ ایا۔ مولیٰ علی(ع) اوپر دئے ختبے میں اسی واقعے کا زکر کرتے ہیں۔

 

 محمّد (ص) نے عمار کی باغیوں کے گروہ کے ہاتھوں شہادت کی پیشن گوئ کی تھی۔
 

اکرمہ سے روایت ہے کہ   مسجد کی تعمیر کے وقت ہم سب ایک وقت میں ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے، جبکہ عمّار ایک وقت میں دو اینٹیں اٹھا کے لا رہے تھے۔ نبی (ص) عمار کے پاس سے گزرے اور اس کے سر پر سے گرد جھاڑی، اور فرمایا، اللّٰہ عمار پر رحم کرے، یہ ایک باغی گروہ کے ہاتھوں مارا جائے گا، یہ انہیں اللّٰہ کی اطاعت کی طرف بلائے گا اور وہ اسے جہنّم کی طرف۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari, Volume 4, Book 52, Hadith 67


 عمار سفّن کے تیسرے روز شامی فوج کے ہاتھوں  شہید ہوئے تھے، نبی (ص) کی پیشن گوئ خود ہی بتا دیتی ہے کہ کون باغی تھے۔۔ اسلام سے باغی معاویہ نا صرف امام علی (ع) کو ناپسند کرتا تھا بلکہ اس نے جمعے کے خطبے کے دوران مولیٰ (ع) کو لعنت ملامت بھی کرنا شروع کردیا تھا، جیسا کہ مولیٰ (ع) نے پیشن گوئ کی تھی۔ 
 

میرے بعد تم پر ایک چوڑے منہ اور بڑے پیٹ والا آدمی مسلط کردیا جا ئے گا، اسکو جو کچھ بھی ملیگا وہ اسکو ہضم کر لیگا اور جو نہیں ملیگا اسکی خواہش کریگا۔ تم کو اسکو قتل کرنا ہوگا مگر میں جانتا ہوں تم لوگ ایسا نہیں کرو گے۔ وہ تم کو مجھے ملامت کرنے اور چھوڑ دینے کا حکم دیگا۔ جہانتک ملامت کی بات ہے تو وہ تم کرنا کیونکہ یہ میرے حق میں بہتر ہو گا اور تمہارے لئے حفاظت کی ضمانت۔ لیکن تم میری راہ چھوڑنا نہیں کیونکہ میں فطری دین پر پیدا ہوا ہوں اور اسکو ماننے میں سب سے آگے تھا اور ہجرت میں بھی۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Nahjul Balagah, Sermon 57, Amir al-mu'minin said to his companions about Mu`awiyah

معاویہ بن ابو سفیان نے سعد کو گورنر چنا اور پوچھا تم کو علی (ع) کو لعنت ملامت کرنے سے کیا چیز روکتی ہے، تو اس نے جواب دیا کہ مجھے نبی (ص) کی اسکے بارے میں کہی گئ تین باتیں یاد ہیں جنکی وجہ سے میں ایسا نہیں کرتا اور اگر مجھے ان تین میں سے کوئ ایک بھی اپنے لئے مل جائے ےتو یہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہوگا۔ پہلا یہ کہ نبی (ص) نے اسکو اپنے لئے ایسا بنایا جیسے موسیٰ کے لئے ہارون، دوسرا موقعہ تب تھا جب نبی (ص) نے فرمایا میں علم اسکو دونگا جو اللّٰہ اور اسکے رسول سے پیار کرتا ہے اور انکو بھی وہی پیارا ہے اور پھر علی کو بلوا کر عَلم دیا اور تیسرا مباہلہ جب ایت اتری کہ اپنی عورتیں اور بیٹے جمع کرو تو رسول(ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو جمع کیا۔۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim, Book 31, Hadith 5915


 اگر معاویہ نے سعد کو مولی (ع) کو برا بھلا کہنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو وہ ان سے کیوں پوچھتا کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔
 

سیرت النبی کی جلد نمبر 1 کے صفحات 66،67 میں آتا ہے کہ شبلی نعمانی بھی یہی کہتے ہیں کہ بنو امّیہ کے خلفاء فاطمہ (ع) کی آل کو کُل اسلامی سلطنت کی تمام مساجد میں، نوّے سالوں تک بدنام کرتے رہے، اور علی (ع) کو مساجد کے منبر سے جمعے کے خطبے میں ملامت کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ شہید نے سبحان خان سے پوچھا کہ کیا علی (ع) کی عدالت میں امیر معاویہ پر تبرّہ ہوتا تھا، اس نے نفی میں جواب دیا۔ اس نے دوبارہ پوچھا کیا معاویہ کی عدالت میں علی(ع) پر تبرّہ ہوتا تھا، اس نے جواب دیا، بالکل ایسا ہوتا تھا۔

مولانا شاہ احمد معین الدین ندوی لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی حکمرانی میں معاویہ نے علی (ع) کو منبر سے لعنت ملامت کرنے کا طریقہ رائج کرایا، اور اسکے اعمال اور اسکے لوگوں کی حرکتوں سے بھی یہی ظاہر تھا۔ مغیرہ ابن شوئبہ ایک بزرگ تھا لیکن چونکہ وہ معاویہ کی پیروی کرتا تھا لہٰذا وہ بھی اس بدعت سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
 
نیچے اسکین صفہ دیا گیا ھے
Khilafat O Malukiyat aur Ulema e AhleSunnat, Abu Khalid Muhammad Aslam, page 120-122


 مولی ٰ (ع) کی شہادت کے بعد بھی امام حسن (ع) اور معاویہ کے درمیان تنازعات چلتے رہے۔ امام (ع)نے بجائے معاویہ کے ساتھ جنگ لڑنے کے اس سے ایک امن کا معاہدہ کرلیا، کیونکہ اس وجہ سے پہلے ہی بہت سے مسلمانوں کا خون بہہ چکا تھا اور نبی (ص) کے کئ صحابہ شہید ہو گئے تھے۔

 

اس معاہدے کا مطلب بہرحال یہ نہ تھا کہ امام حسن (ع) معاویہ کے ساتھی بن گئے ، کیونکہ معاہدہ ہمیشہ دو لڑتی ہوئ اقوام کے درمیان ہوتا ہے۔ محمّد (ص) نے حدیبیہ کا معاہدہ بھی ان لوگوں کے ساتھ کیا تھا جن سے آپ (ص) کی کئ سالوں سے لڑائ چل رہی تھی۔

 

دھواں وہاں ہی ہوتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔ سنّی تاریخ کہتی ہے کہ معاویہ عائشہ کی موت کا ذمہ دار تھا۔
 

ہم کہتے ہیں کہ وہ نبی (ص) کی پسندیدہ بیوی تھی، اور قرآن کی کئ آیات کے مطابق مسلمان خواتین کے لئے مثال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 64 سال کی عمر میں اسکے خون کی کوئ قیمت نہ تھی۔
 

معاویہ نے حضرت عائشہ کو کھانے پر بلایا۔ اس نے حکم دیا کہ ایک گہرا گڑھا کھودا جائے اور اسکو اوپر کی طرف رخ کئے نیزوں اور تیروں سے بھر دیا جائے۔ علامہ ابن خلدون کے مطابق، معاویہ نے اس گڑھے کو پتلی سی لکڑی سے ڈھک دیا اور اس پر قالین ڈال دیا۔ اس کے اوپر اس نے ایک لکڑی کی کرسی رکھ دی تاکہ حضرت عائشہ اس پر بیٹھیں۔ جیسے ہی حضرت عائشہ اس پر بیٹھیں وہ نیچے لڑھک گئں، انکی کئ ہڈیاں ٹوٹ گیئں اور شدید زخمی ہو گیئں۔ اس جرم کو چھپانے کے لئے معاویہ نے اس گڑھے کو بھروا دیا اور عائشہ کو اس ہی میں دفنا دیا، لہٰذا وہ عائشہ کے قتل کا ذمہ دار تھا۔
 

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔

 
نیچے اسکین صفہ دیا گیا ھے
Musharaf al Mehboobeen, By Sheikh ul Tareeqat Hazrat Khwaja Mehboob Qasim Chishti Muhsarafee Qadiri, Page 616


 یہ سنّی حوالوں میں سے ایک کا دعویٰ ہے۔ آپ شاید اس پر بحث کرنا چاہیں، مگر اس سے پہلے آپ عائشہ کے قتل کے بارے میں کچھ پڑھ ضرور لیجئے۔

 

امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد امام حسین (ع) کو کربلا کی سرزمین پر بےدردی سے شہید کیا گیا، یہ قاتل کون تھا۔۔۔ یزید ابن معاویہ۔۔ معلون ابن معلون!

 

میں یہ مان نہیں سکتا کہ نبی (ص) کے اصحاب آپس میں دوست تھے اور ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے جبکہ وہ آپس میں جنگیں لڑ چکے ہیں اور ایک دوسرے کے قاتل بھی ہیں۔

 

ذیل میں ایک فہرست ہے جو پورے مضمون کا خلاصہ ہے۔، شاید یہ کچھ مدد کرے۔

 

  1. نبی (ص) کے اصحاب نے عائشہ کے زنا کرنے کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلا دیں

  2. ابو بکر اور عمر کے بیچ میں چھوٹی موٹی لرائیاں اور بحثیں

  3. عروہ (صحابی) کی حسن (صحابی) کو لعنت ملامت

  4. صحابہ کا اسامہ کو اپنا سردار ماننے سے انکار، جبکہ یہ رسول(ص) خود کا حکم تھا

  5. جمعرات کا المیہ ، جب نبی (ص) کے وصال کے وقت صحابہ کا آپ (ص) کے سرہانے کھڑے ہو کر اپس میں لڑ پڑے. ایک گروہ نبی (ص) کی وصیت سننا چاہ رہا تھا جبکہ دوسرا رسول(ص) پر ہزیان کا الزام لگا کر اس وصیت کو سننے سے ہی انکار کر رہا تھا۔

  6. نبی (ص) کی ازواج کے آپس میں جھگڑے، اور کچھ ازواج کی نبی (ص) کے خلاف سازش

  7. خالد بن ولید کے بنو جدھیمہ پر مظالم، جوکہ خود نبی (ص) نے ناپسند کئے

  8. سقیفہ پر انصار اور مہاجرین کے بیچ پُر اشتعال بحث، جسکی وجہ سے سعد ابن عبیدہ زخمی ہو گئے

  9. مولیٰ علی (ع) اور آپ (ع) کے ساتھیوں کا ابوبکر کی خلافت پر راضی نہ ہونا

  10. فاطمہ (ع) کا ابوبکر سے فدک نہ دینے کی وجہ سے قطع تعلق

  11. مولیٰ علی (ع) کا ابوبکر اور عمر کے فدک اور خلافت کے حقوق غضب کر لینے کی وجہ سے ان کو جھوٹا اور بد دیانت سمجھنا

  12. خالد بن ولید  کا مالک بن نویرہ  کو قتل کرنا اور اسکی بیوی کی آبرو ریزی کرنا

  13. عمر کا خالد بن ولید پر غصہ ہونا اور اسکے خلاف ابوبکر کے دور میں احتجاج کرنا

  14. خالد بن ولید کا عمر کے زمانے میں معطل ہونا، اور پھر فوج سے مکمل طور پر خارج  کر دئے جانا

  15. ابو ذر غفاری  کا عثمان کی حکومت میں ملک بدر کر دئے جانا

  16. عمار بن یاسر اور عبداللّٰہ بن مسعود کی عثمان کے کہنے پر پٹائ

  17. طلحہ ، زبیر، عائشہ اور امر بن العاص کا لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکانا

  18. مولیٰ علی (ع) کے طلحہ، زبیر اور عائشہ کے بارے میں خراب خیالات اور دونوں گروہوں کے درمیان جنگِ جمل

  19. مولیٰ علی (ع) کے معاویہ اور امر بن العاص کے بارے میں خراب خیالات اور دونوں گروہوں کے درمیان جنگِ سفّن

  20. معاویہ کا مولیٰ علی (ع) کو جمعے کے خطبے کے بعد ملامت کا طریقہ رائج کرانا

  21. محمد (ص) کی پیشن گوئ اور عمار بن یاسر کی معاویہ کی فوج کے ہاتھوں شہادت

  22. امام حسن (ع) اور معاویہ کے بیچ معاہدہ

  23. معاویہ کا عائشہ کے قتل کی کامیاب سازش کرنا

  24. واقعہء کربلا


 اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہ مان لوں کہ نبی (ص) کے صحابہ اور ازواج بہت پیار محبت سے رہنے والے تھے اور انکے آپس میں کوئ جھگڑے نہیں تھے تو میں ایسا کرنے پر تیار ہوں، لیکن اسکے لئے مجھے اپنی ایک تصوراتی دنیا بسانی ہوگی۔ اور اگر آپ حق کی بات کرتے ہیں، حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا ماننا ناممکن ہے۔ یہ حقیقت ان لوگوں کے لئے تلخ ثابت ہوگی جو یہ  مانتے ہیں، یا ماننا پسند کرتے ہیں، کہ مولی (ع) کو معاویہ پسند تھا، یا عائشہ عثمان کی عزت کرتی تھی۔ خالد بن ولید اور امر بن العاص اچھے جنگجو ضرور ہونگے، مگر یہ انکو اچھے مسلمان یا صحابہ نہیں بناتا۔

 

اگر آپ ان سب سے محبت کرتے ہیں، تو یہ ایسا ہے جیسے آپ موسیٰ اور فرعون دونوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیونکہ دو گروہ جو ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہوں، ایک دوسرے سے پیار نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 

اپ رسول(ص) کے وصال کے بعد کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ رسول(ص) کے وصال کے پچاس سال کے اندر اندر رسول(ص) کی پہلی اور دوسری نسل کو قتل کر دیا گیا۔ کربلا اپ کے سامنے ہے۔

 

اگر آپ دونوں طرف کے لوگوں سے پیار کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو آپ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ سنّی تمام صحابہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر انمیں سے اکثر کو پانچ سے زیادہ اصحاب کے نام بھی نہیں معلوم

 

 اگر اپ علی سے اتنا حب رکھتے ہیں جتنا عائشہ سے، تو جمل میں شاید اپ کو اپنی ہی گردن پر تلوار چلانی پڑ جاتی۔ عقل کا تکاضا ہے کہ اگر دو گروہ اپس میں اختلاف رکھیں تو دونوں حق پر نہیں ہو سکتے، ایک حق پر ہو گا یا دونوں ہی باطل ہوں گے۔

 

 ہماری وفاداری امام علی کے ساتھ ہے، یا کم سے کم شیعہ اس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 

آپ کے پاس اب صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ آپ کسی ایک گروہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیں۔ یا تو ان لوگوں کے ساتھی بن جایئں جن کو لوگوں نے چنا، یا انکو جنکو اللّٰہ نے۔ کیونکہ اگر آپ اس گروہ کیساتھ جاتے ہیں جنہوں نے اللّٰہ، اسکے پاک رسول (ص) یا اپ(ص) کے معصوم اہلِ بیت کا دل توڑا، یا انکو تکلیف پہنچائ، تو آپ کو اللّٰہ کے آگے جوابدہی ضرور کرنی ہوگی۔

 

اگر آپ مجھ سے پوچھیں، تو میں نبی (ص) کے صحآبہ کے اوپر آپ(ص) کے اہلِ بیت کو چنتا ہوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کیوں، تو اسکا جواب میں آپکو مولیٰ علی (ع) کے الفاظ میں دیتا ہوں، کیونکہ آپ (ع) سے زیادہ فصیح  و بلیغ کون ہو سکتا ہے۔ 
 

مہاجرین کے ایک گروہ کی شہادت ہوئ۔ وہ سب اللّٰہ کی راہ میں قربان ہوئے تھے، لہٰذا انکو اللّٰہ کے یہاں مرتبہ اور مقام عطا ہوا۔ انمیں سے جو لوگ میرے خاندان اور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، ان کو اللّٰہ نے بہت ہی عمدہ مقام دیا، حمزہ (رسول اور امام علی  کے چچا) کو سید الشہداء کا خطاب ملا۔ نبی (ص) نے خود انکو انکی شہادت اور سپردِ خاک ہونے کے بعد انکو اس نام سے بلایا۔
 
رسول (ص) نے آپ کے لئے ستر دفعہ تکبیر پڑھی، جو کبھی کسی مسلمان کے لئے نہیں پڑھی گئ۔ کچھ مہاجرین کے اس جنگ میں ہاتھ کٹ گئے، لیکن جب ہم میں سے ایک، جعفر (رسول  کے چچازاد اور علی کے بھائ) کے دونوں ہاتھ کاٹے گئے، تو اللّٰہ نے آپ کو فرشتوں کے پر عطا کئے اور رسول (ص) نے ہمیں بتایا کہ آپ کو طیّار
(جو جنّت میں اڑتا ہے ) کا لقب ملا ہے. اے معاویہ سن لے، ہم (نبی کے اہلِ بیت اور نسل  اللّٰہ کی مخلوق کی انوکھی مثالیں ہیں۔ اس مقام کے لئے ہم کسی انسان کے نہیں بلکہ اللّٰہ کے شکرگزار ہیں، جس نے ہم پر اپنی رحمت کی۔ بنی نوع انسان نے ہم سے کاملیت لی ہے اور لیتے رہیں گے۔
 
تم ہم جیسے کیسے ہو سکتے ہو، جبکہ نبی (ص) ہم میں سے تھے اور ابو جہل، اسلام کا بدترین دشمن تم میں سے تھا۔ اسداللّٰہ ہم میں سے اور اسد الاحلاف تم میں سے ہے۔ جنت کے سرداران، حسن اور حسین، ہم میں سے ہیں اور جھنم کے بچے تم میں سے۔ دنیا کی بہترین عورت ہم میں سے، اور الزام لگانے والی، لکڑیاں اٹھانے والی وہ عورت، جس نے اپنی زندگی کا ہر گھنٹہ نبی (ص)  کو نقصان پہچانے میں صرف کیا ، تمہارے خالہ تھی۔
 
ہم اللّٰہ کے سچے فرمانبردار ہیں اور تم لوگوں نے اسلام صڑف اس لئے قبول کیا ہے کیونکہ تم لوگ بے عزتی سے بچنا چاہتے تھے۔ ہماری اسلام کے لئے پرخلوص کوششیں تاریخی حقائق ہیں اور تاریخ تمہاری اسلام اور رسول (ص) کی دشمنی نہیں جھٹلا سکتی۔
قرآن کہتا ہے کہ کچھ قرابتہدار دوسروں سے زیادہ افضل ہیں۔ اور اس ہی کتاب میں دوسری جگہ آتا ہے ابراہیم کے قریب ترین وہ لوگ ہیں جو اسکی پیروی کرتے ہیں، اور نبی (ص) کی پیروی کرتے ہیں اور سچے ماننے والے ہیں اللّٰہ سچے ماننے والوں کا خیال رکھنے والا ہے۔ لہٰذا ہمارے دو خصوصی فضائل ہیں، ایک تو نبی (ص) سے قرابتداری اور دوسرا آپ(ص) کی تعلیمات کی سچی پیروکاری۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Nahjul Balaga, Letter 28, A reply by Imam Ali to the letter sent by Mawiya


 سنّی حضرات کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی کی پیروی کرنا آپکو راہِ راست تک لے جاتا ہے، اور اس دعوے کی تصدیق کے لئے وہ یہ کمزور حدیث استعمال کرتے ہیں،
 

نبی (ص) نے فرمایا میرے صحابہ سِتاروں کی طرح ہیں، تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Al-Suyuti, Tarikh al-Khulafa, p. 160. 


 
مجھے بتایئے میں کس کی طرف جاؤں، کیونکہ اگر میں علی (ع) کو چنتا ہوں تو آپ مجھے کافر بلاتے ہیں، اسلئے کہ علی (ع) کا چناؤ مجھے مجبور کر دیتا ہے کہ میں لاتعلق ہو جاؤں اسکے دشمنوں سے، ان لوگوں سے جن سے امام علی (ع) لڑے، ان لوگوں سے جن کو امام (ع) نے  جھوٹا سمجھا۔
 

ضر کہتے ہیں، علی نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو توڑ کر اسمیں زندگی ڈالی، رسول اللّٰہ (ص) نے مجھ سے وعدہ کیا کہ سوائے مومن کے کوئ مجھ سے پیار نہیں کریگا، اور سوائے منافق کے کوئ میرے خلاف بغض نہیں رکھے گا۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim Book 001, Number 0141


 
ہمارا پیار علی ابن ابو طالب (ع) کے لئے ہے، اور ہمارا پیار محمّد (ص) کے اہل البیت (ع) کے لئے ہے۔ ہمارا احترام نبی (ص) کے اُن صحابہ اور ازواج کے لئے ہے جو نبی (ص) کے وصال سے پہلے اور بعد میں، اسلام، نبی (ص) اور آپ (ص) کے اہلِ بیت (ع) کیساتھ مخلص رہے۔

 

میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ کس کو چنو گے، نبی (ص) کے تمام صحابہ کو یا نبی (ص) کے متّقی اور نیکوکار صحابہ کو۔

 

وہ جنہوں نے زخمی حالت میں اللّٰہ اور رسول کی پکار کا جواب دیا (احد کے دن)، انمیں سے جنہوں نے اچھے اعمال کئے اور خدا سے ڈرے، ان کے لئے بڑا اجر ہے۔
Quran [3:172]


 کیونکہ اللّٰہ کا اجر سب کے لئے نہیں ہے۔

 

حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) کے اہلِ بیت پر اللّٰہ کی رحمتیں ہوں۔ اللّٰہ ان لوگوں سے خوش ہو جنہوں نے اسلام کا ساتھ دیا اور اپنی تمام زندگیاں رسول (ص) اور آپ (ص) کے اہلِ بیت (ع) کی مخلصانہ مدد میں صرف کی ۔ اور ان لوگوں کے لئے اللّٰہ کی لعنت کافی ہے جنہوں نے اسلام اور نبی (ص) کے احکامات کے خلاف اعمال کئے، اور اہلِ بیت (ع) کیساتھ نا انصافی کی، کیونکہ اللّیہ جھوٹوں کیساتھ نہیں ہے۔ 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.