We believe that a true and comprehensive
understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the
Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
صرف علی(ع) ہی کیوں؟
Mail
Box Letter Relevant to
this Topic
Letter
10:
Ali-yun Wali Allah
Letter
07:
Nomination of Ali
and Refusal of Majority equals Failure of Prophet
Letter
03:
Mawlayiat of Ali (AS), Zaid and the Ahadith
The
following document is an urdu version of the article, "Why
Ali".
Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Shaazia Faiz [shaazia_faiz@hotmail.com]
شیعہ حضرات امام علی(ع) سے اتنی عقیدت کیوں رکھتے ہیں ؟ کیا وہ کوئ خدا تھے، نبی تھے یا امام ؟ نُسہری آپ(ع) کو خدائ روپ کیوں سمجھتے ہیں ؟ علی(ع) سے عداوت رکھنا ایک بندے کو دامنِ اسلام سے خارج کیوں کر دیتا ہے ؟ علی(ع) ہر چیز میں اوّل اور سب سے افضل کیوں تھے اور کئ لوگ علی(ع) اور اسکے شیعوں کے خلاف بغض کیوں رکھتے ہیں؟
علی(ع) کو اسلام میں اتنی اہمیت کیوں حاصل ہے ؟ سوال یہ ہے، علی(ع) ہی کیوں ؟ اور علی سے ہماری یہاں مراد، یقینی طور پر، علی(ع) ابن ابو طالب ہے۔
ابلیس، یا جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، شیطان، جِنوں
میں سے تھا، مگر تخلیقِ آدم(ع) سے پہلے وہ ساٹھ ہزار فرشتوں کا معلم تھا۔ کچھ
روایات میں آتا ہے کہ وہ چار سو ہزار سالوں سے خدا کی عبادت کرتا آرہا تھا۔
اس ہی طرح، محمّد بن اسحاق نے روایت کی کہ ابنِ عبّاس نے کہا، ’گناہ
کی روش اپنانے سے پہلے ابلیس فرشتوں کے ساتھ تھا اور عزازیل کہلاتا تھا۔ وہ دنیا کے
باسیوں میں سے تھا اور سب سے زیادہ چست عبادت گذاروں اور باعلم فرشتوں میں اسکا
شمار ہوتا تھا۔ اس وجہ سے وہ مغرور ہو گیا تھا۔ ابلیس جنوں میں سے تھا۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند
ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 2, Verse 34
ابلیس توحید میں یقین رکھتا تھا اور اب بھی جانتا ہے
کہ واحد اللّٰہ کی ذات عبادت کے لائق ہے۔ مگر اس نے عبادت کے مفہوم کوصحیح طور پر
نہ سمجھا بلکہ اللّٰہ کے سامنے سر جھکانے کو عبادت سمجھ بیٹھا۔
درحقیقت، اصل عبادت تو یہ ہے کہ ہم وہی اعمال کریں جن
کا اللّٰہ نے حکم دیا ہے، اور وہاں ہی سر جھکایئں جہاں ہمارے رب نے جھکانے کا حکم
دیا ہے، جیسا کہ علامہ طالب جوہری نے بھی کہا۔
اور جب ہم نے فرشتوں سے
کہا، آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس (نے نہیں کیا) ۔ اس نے انکار
کیا اور وہ مغرور تھا، اور وہ نہ ماننے والوں میں سے ایک تھا۔
Quran [2:34]
آدم(ع) کو ایک سجدے سے انکار نے ابلیس کے اللّٰہ کو کئے گئے
پچھلے تمام سجدے ضائع کر ڈالے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ کیا اس نے اللّٰہ کی توحید یا صفات
کا انکار کیا تھا ؟ اس نے تو اللّٰہ کا محض ایک حکم جھٹلایا تھا۔
مشرق اور مغرب، ہر چیز اللّٰہ ہی کی ہے۔
اور اللّٰہ ہی کا ہے مشرق
اور مغرب، سو تم جس طرف بھی مڑو وہاں اللّٰہ ہی کا مقصد ہے ؛ بیشک اللّٰہ
بہت دینے والا، جاننے والا ہے۔
Quran [2:115]
ہر مسلمان نماز پڑھتا ہے۔ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو سجدہ
کرتا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑے گا اکر وہ
کسی بھی طرف منہ کر کہ نماز پڑھ لے؟ کیوں کر اخرکار مشرق بھی اللہ کا ہے اور مغرب
بھی اور سجدہ تو اللہ کے لئے ہی ہے۔ اس سے کوئ فرق نہیں پڑنا چاہئے کہ وہ کسی خاص سمت میں منہ کر کے
نماز پڑھیں، مگر اس سے فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ اللّٰہ خود ہمیں قبلہ رو دیکھنا چاہتے
ہیں۔
بیشک ہم تمہارے چہرے کا مُڑنا دیکھ رہے ہیں، تو ہم ضرور قبلہ کو
تمہاری مرضی سے موڑ دیں گے، پھر اپنا چہرہ
مقّدس مسجد کی طرف موڑ لو، اور تم جہاں بھی ہو، اپنا چہرہ اس کی طرف موڑ لو،
اور بیشک وہ جن کو کتاب دی گئ ہے جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور
اللّٰہ بالکل بھی ان کے اعمال سے لا علم نہیں ہے۔
Quran [2:144]
اب اگر اللہ نے کعبہ چن لیا، اور چاہتا ہے کہ اسی قبلے کی طرف منہ کر کہ نماز
پڑھنا عبادت ہے، تو اسی طرف ہی سجدہ کرنا عبادت ہے۔
اپ اللہ کو جتنے سجدے کر لیں، جب تک وہ اس
سمت میں نہیں ھوں گے جس سمت میں اللہ چاہتا ھے، تب تک وہ سجدہ بیکار ہے۔
اب تک ہم نے یہ قائم کر
لیا ہے کہ اللّٰہ کی عبادت سے مراد وہ اعمال کرنا ہے جن کا حکم اللّٰہ نے دیا ہے۔
کہو، اللّٰہ اور اسکے
پیغمبر کی اطاعت کرو ؛ پر اگر وہ پلٹ جایئں، تو بیشک اللّٰہ نا ماننے والوں
سے پیار نہیں کرتا۔
Quran [3:32]
اور جو بھی اللّٰہ اور
اسکے پیغمبر کی نافرمانی کرتا ہے اور اپنی حدود سے آگے بڑھتا ہے، وہ اس کو آگ میں
ہمیشہ کے لئے داخل فرمائے گا، اور اسکو ذلّت والا عذاب دیا جائے گا۔
Quran [4:14]
میں قسم کھاتا ہوں ٹوٹتے ہوئ ستارے کی
تمہارا ساتھی غلطی نہیں کرتا یا بہکتا
نہیں ہے، نہ ہی وہ سیدھی راہ سے بھٹکتا ہے
نہ ہی وہ خواہش سے بولتا ہے یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک وحی ہے جو کی جا رہی ہے
قوّت والے رب نے اسے تعلیم دی ہے لہٰذا وہ کامل ہو گیا
Quran [53:1-6]
لہٰذا اگر ہمیں عبادت
کرنی ہے تو ہمیں وہ سب کرنا ہوگا جس کا رسول(ص) حکم دیں، کیونکہ آپ(ص) اپنی ذاتی خواہش کے تحت کچھ نہیں کہتے بلکہ آپ(ص) کی ہر بات وحئ خداوندی ہوتی
ہے۔ جی ہاں میں
غدیر کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جب امام علی(ع) کو مولیٰ قرار دیا گیا
تھا۔ اس بات کو نظرانداز نہ کیجئے گا کہ آپ(ع) قرآن میں اللّٰہ اور اسکے
رسول(ص) کیساتھ ساتھ مومنوں
کے ولی قرار دئے جا چکے ہیں۔
صرف اللّٰہ تمہارا ولی ہے،
اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے، جو نماز قاءم کرتے ہیں اور زکوٰتہ ادا
کرتے ہیں جب وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔
Quran [5:55]
تمام شیعہ اور سنّی علماء
متّفقہ طور پر اس آیت کی تیسری ہستی حضرت علی(ع) کو مانتے ہیں۔
عمّار یاسر(ر) سے روایت ہے کہ ایک فقیر علی(ع)
کے پاس آیا اور کھڑا ہو گیا۔ علی(ع)
دورانِ نماز رکوع میں میں تھے۔ علی نے اپنی انگوٹھی اُتاری اور اس فقیر کو دے دی۔
پھر علی رسول(ص)
کے پاس گئے اور آپ(ص)
کو یہ خبر دی۔ اِس موقع پر یہ آیت 5.55 نازل ہوئ۔
انیچے
اسکین صفہ دیا گیا ھے
The
Ghadir Declaration, by Dr Muhammad Tahir ul Qadri, pages 48-49
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ
علی(ع) ہی کیوں اور کوئ اور کیوں نہیں ؟ ان حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ مولی
علی(ع) بہادری، اخلاق، شرافت، روحانیت اور علم و آگاہی میں سب سے افضل تھے۔ اس بات
کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے کہ امام علی(ع) نی(ص) کے اس خدائ مقصد میں آپ(ص) کے
قریب ترین ساتھی تھے اور آپ(ع) نے چھتیس سال تک نبی(ص) کے زیرِ سایہ پرورش و
تربیت حاصل کی۔
اللّٰہ کے پیغمبر نے کہا،
علی سے محبّت ایمان کی نشانی ہے، اور علی سے نفرت منافقت کی علامت ہے۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ
انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Tirmidhi, volume 5, page 643
Sunan Ibn Majah, volume 1, page 142
Musnad Ahmad Ibn Hanbal volume 1, pages 84,95,128
Tarikh al-Kabir, by al-Bukhari (the author of Sahih), v1, part 1, p202
ان سب حقائق کو نظرانداز
کر کے اگر ہم عقلی دلائل سے بات کریں، تو یہ مثال لیتے ہیں۔
فرض کیجئے آپ ایک
تعلیمی ادارے ممیں زیرِ تعلیم ہیں اور اپکے ساتھ اس ادارے کے سربراہ کا بیٹا یا
بھائ بھی پڑھتا ہے۔ ہر امتحان میں وہ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتا ہے،
چاہے آپ جتنی بھی محنت کرلیں۔
اساتذہ اس سے خصوصی برتاؤ روا رکھتے ہیں اور وہ انکا پسندیدہ نظر آتا ہے۔ جب طلباء کا منتظم چننے کا وقت آتا ہے تو اساتذہ کی نگاہِ انتخاب اسی پر ٹھہرتی ہے۔
اب تو وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو، تمام طلباء کے دلوں میں یہ خیال ضرور پیدا ہوگا کہ اسکو منتخب کرنے کی وجہ صرف اسکا ادارے کے سربراہ سے قریبی تعلق ہے۔
اب حقائق پر آتے ہیں۔ امام علی(ع) بنو ہاشم کی دعوت میں نبی(ص) کے مقصد کے لئے کھڑے ہونے والے پہلے شخص تھے آپ(ع) نبی(ص) کے چچازاد بھائ بھی تھے۔ آپ(ع) ہی کو مدینہ ہجرت کے وقت لوگوں کی امانتیں لوٹانے کا فریضہ سونپا گیا۔ آپ(ع) جنگِ بدر، احد، خیبر، خندق اور حنین وغیرہ کے مثالی اور مرکزی کردار ثابت ہوئے۔
آپ(ع) کو خیبر کے موقعے
پر علم دیا گیا، وہی
علم جس کے بارے میں نبی(ص) نے فرمایا اور بخاری میں بھی
محفوظ ہے
سہل نے روایت کی ، خیبر کی جنگ کے دن نبی(ص)
نے فرمایا ’ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو
دونگا جو اللّٰہ کی جانب سے فتح دیا جائے گا اور جو اللّٰہ سے اور اسکے رسول(ص)
سے محبت کرتا ہے اور اللّٰہ اور اسکے رسول(ص)
جس سے محبت کرتے ہیں۔۔ ’
تو، لوگ تمام رات سوچتے رہے کہ
علم
کس کو ملے گا اور صبح سب امید کر رہے تھے کہ
علم
انکو دیا جائے گا ۔ اللّٰہ کے رسول(ص)
نے پوچھا، علی(ع)
کہاں ہے ؟ آپ کو بتایا گیا کہ علی(ع)
آنکھ کے عارضے میں مبتلا ہیں، تو آپ(ص)
نے اپنا لعب دہن علی(ع)
کی آنکھ میں لگایا اور اللّٰہ سے علی(ع)
کی صحت کی دعا فرمائ۔ آپ(ع)
فوراً بالکل ایسے صحیح ہو گئے جیسے کوئ تکلیف تھی ہی نہیں۔ نبی(ص)
نے علی کو
علم
دے دیا۔
......
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند
ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Bukhari Volume 4, Book 52, Number 253
اگے بڑھنے سے پہلے میں اپ سے سوال کروں گا۔ کیا اگر اللّہ کے رسول(ص) کسی شخص کے
لئے دعا کرتے کہ خدا اس کہ ہاتھ پر فتح اتارے، تو کیا کوئ بھی شخص رسول(ص) کی دعا
کے وسیلے سے خیبر فتح نا کرتا؟ پھر علی(ع) ہی کیوں؟
شاید ادھر مسلہ خیبر فتح کرنے کا نہیں تھا، کیوں کر اس کے لئے رسول(ص) ہی کافی تھے۔ مسلہ تھا یہ دکھانے کا کہ اخر کار وہ شخص ہے کون، جو اللّہ اور اس کے رسول(ص) کو چاہتا ھے، اور اللّہ اور اس کے رسول(ص) جس کو چاہتے ھیں۔
علی(ع) ہی وہ شخص تھے جس کو نبی(ص) کی بیٹی کا ہاتھ شادی کے بندھن میں دیا گیا تھا، وہی بیٹی جسکے لئے آپ(ص) نے کئ رشتوں کو انکار کر دیا تھا، جن میں کافی مشہور اصحابِ رسول(ص) بھی شامل تھے۔ علی(ع) کو رسول(ص) کے لئے ایسا قرار دیا گیا تھا جیسے موسیٰ(ع) کے لئے ہارون۔
غدیر کے موقعے پر، علی(ع) کو مولیٰ قرار دیا گیا۔
جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ یہ علی
بھی ہے۔ یا اللّٰہ جو علی سے محبت رکھے اس سے محبت رکھیئے اور جو اس سے نفرت
رکھے اس سے نفرت کیجیئے۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند
ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
نیچے اسکین صفہ دیا گیا
ھے
The Ghadir
Declaration, by Dr Muhammad Tahir ul Qadri, page 49
کیا آپکو
اوپر دی ہوئ تعلیمی ادارے
والی اور اس مثال میں کوئ مشابہت نظر آتی ہے ؟ مولیٰ علی(ع) کی والیت اور امامت
میں یقین رکھنا ایمان و شک کی آخری آزمائش ہو سکتی ہے، ان شکوک کی وجہ سے جو لوگوں
کے دل میں رسول(ص) کے
خلاف علی(ع)
کے ساتھ خصوصی سلوک کی وجہ سے پیدا ہوئے۔
نبی(ص) کی آمد سے پہلے لوگ مشرک تھے۔ کافی لوگوں کا خیال تھا کہ آپ(ص) کا علی(ع) کیساتھ خصوصی سلوک علی(ع) کے نبی(ص) کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ کوئ وحی نہیں۔
یہ خیال دل میں لانا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو ہر جگہ باقیوں پر بڑتری دی، اللّہ کا حکم نہیں بلکہ رسول(ص) کی زاتی خواہش تھی صرف اس لئے کہ علی اپ(ص) کا بھائ تھا، یہ خیال رسالت پر انگلی اٹھاتا ھے۔ ہر بات پر انکھ بند کر کہ ایمان لانا رسالت کا حق ہے۔
اس لئے علی(ع) کا چناو اللّہ کی رضا سے مومن اور منافق میں فرق دکھا دیتا ھے، جیسے کہ رسول(ص) نے بھی اپنی اوپر دی گئ دعا میں کہا ہے۔ مومن انکھ بند کر کے علی(ع) کی مولایت پر ایمان لے ائے گا، منافق اس حکم پر شاید رسالت پر شک کر بیٹھے، جو کہ تاریخ میں ہو چکا ہے۔
کیوں کر لوگوں نے
خدا نہیں دیکھا، فرشتہ نہیں دیکھا، جنت و دوزخ نہیں دیکھی۔ لوگ نبی(ص) پر ایمان لاے،
غیب کا ایمان۔ اور یہ ایمان بل غیب ڈگمگا
جاتا اگر ہر چیز میں رسول(ص) اپنے گھر والوں کو اگے اگے کرتے، غدیر ھو یا مباحلہ،
خندق ھو یا سورہ بارات لے جانے کا کام۔ اور ایسا ہی ہوا جب یزید پلیت نے یہ
بکا, ،
بنی ہاشم نے حکومت کے لئے
سارا ڈراما رچا۔ نا ہی اسمان سے کوئ خبر اتری، نا ہی کوئ وحی۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند
ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Shazrah al Dhahab page 69 Dhikr Shahadth Husayn
Maqatahil Husayn Volume 2 page 58 Dhikr Shahdath Husayn
جیسا کہ ہم شکوک، شہبات و
خدشات کی بات کر رہے ہیں، لوگوں کے نبی(ص) کے فیصلوں پر شہبات تو غدیر سے پہلے بھی
سامنے آچکے ہیں۔
ابو ویل کی اجازت سے روایت کی جاتی ہے، انہوں نے کہا، سہل بن حنیف
سفّن کے روز کھڑے ہوئے اور کہا اہ لوگوں، اپنے آپ کو اپنے کئے گئے فیصلوں کا مجرم
ٹھہراو، ہم حدیبیہ کے روز اللّٰہ کے
پیغمبر(ص)
کیساتھ تھے۔ اگر ہم لڑنے کو مناسب جانتے تو ہم لڑ سکتے تھے۔ یہ نبی(ص)
اور مشرکوں کے بیچ معاہدے میں تھا۔
عمر بن خطّاب آئے، نبی(ص)
کے پاس جا پہنچے اور کہااے اللّٰہ کے
پیغمبر، کیا ہم حق کے لئے نہیں لڑ رہے اور وہ باطل کے لئے ؟ آپ(ص)
نے جواب دیا، تمام طریقوں سے۔ عمر نے کہا، کیا ہماری طرف کے تمام مرنے والے جنّت
میں نہیں جایئں گے اور انکے تمام مرنے والے آگ میں ؟ آپ(ص)
نے جواب دیا، ہاں۔ اس نے کہا، پھر ہم کیوں واپس جا کر اپنے مذہب پر داغ لگا رہے ہیں،
جبکہ ابھی اللّٰہ نے انکے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟
آپ(ص)
نے فرمایا، اے خطّاب کے بیٹے، میں اللّٰہ کا پیغمبر ہوں۔ اللّٰہ کبھی مجھے برباد
نہیں کریگا۔ راوی نے کہا عمر چلا گیا، مگر وہ اپنے اشتعال پر قابو نہ پاسکا۔
لہٰذا وہ ابوبکر کے پاس جا پہنچا اور کہا، ابوبکر، کیا ہم حق کے لئے نہیں لڑ رہے
اور وہ باطل کے لئے ؟ اس نے جواب دیا، ہاں۔ عمر نے پوچھا، کیا ہماری طرف کے تمام
مرنے والے جنّت میں نہیں جایئں گے اور انکے تمام مرنے والے آگ میں ؟ ابو بکر نے
جواب دیا، کیوں نہیں۔ عمر نے پھر کہا، پھر ہم کیوں اپنے مذہب کو نیچا کریں اور پلٹ
جایئں، جبکہ اللّٰہ نے اب تک ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ ابوبکر نے
کہا، خطّاب کے بیٹے، بیشک آپ(ص)
اللّٰہ کے پیغمبر ہیں۔ اور اللّٰہ آپ(ص)
کو کبھی برباد نہیں کریگا۔
راوی لکھتا ہے (اس پر قرآن )کی ایک سورہ(
نبی
(ص) پر
فتح و کامرانی کے خوشخبری لئے نازل ہوئ۔ آپ(ص)
نے عمر کو بلوا بھیجا اور اسے یہ پڑھائ۔ اس نے پوچھا، کیا یہ معاہدہ ایک فتح ہے ؟
نبی(ص)
نے جواب دیا، ہاں۔ اس پر عمر بہت خوش ہوا اور واپس چلا گیا۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ
انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Muslim Book 019, Number 4405
لہٰذا امام علی(ع) ان شکوک کے بیچ کا
فرق ہوسکتے تھے۔ نبی(ص) پر آپ(ص) کے علی(ع) کیساتھ خصوصی برتاؤ کے بارے میں شبہ
کرنا آپ(ص) کی لائ گئ ہر چیز پر شبہ کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے۔
چناچہ امام علی(ع) ایمان اور منافقت کے درمیان واقع فرق ہوسکتے ہیں، جیسا کہ اوپر نقل کی گئ نبی(ص) کی ایک حدیث میں بھی آتا ہے۔ جس طرح محض آدم(ع) کو سجدہ کرنے سے انکار نے عزازل کو ابلیس بنا دیا، بالکل اس ہی طرح علی(ع) کی امامت اور مولایئت کو جھٹلانا، اور آپ(ع) کے لئے عداوت رکھنا کسی کو بھی کافر یا نبی(ص) کا انکار کرنے والا بنا سکتا ہے۔
کیونکہ اگر میں نبی(ص) کو علی کے ساتھ خاص روّیہ رکھنے اور جانبدارانہ انداز میں پیش آنے کا الزام دیتا ہوں تو میں نبی(ص) کو ایک نبی ہی کے طرح نہ رہنے کا الزام دے رہا ہوں، میں قرآن کو جھٹلا رہا ہوں جو کہتا ہے کہ نبی(ص) اپنی ذاتی خواہش کے تحت کچھ نہیں کرتے۔ اطاعتِ محمّد(ص) کی حدود جاننے کے لئےپڑھئے، ’محمد(ص)، قران کی روشنی میں’ ۔
اس ہی طرح، جو لوگ علی(ع) کے لئے بغض رکھتے ہیں وہ خود رسول(ص) سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ علی(ع) کو مباہلہ پر نفس الرسول قرار دیا گیا ہے، آپ(ع) کو اہلِ بیت اور آیتِ تطہیر میں شامل کیا گیا، مباہلہ پر لے جائے گئے، اور وہ شخص تھے جن سے ہماری محبت ایمان کی علامت ہے۔
جن لوگوں کو علم نہیں ہے،
انکے لئے درجِ ذیل ایک فہرست ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ، رسول(ص) کی دعوتِ تبلیغ کی
شروعات سے آپ(ص) کے آخری لمحے، آپ(ص) کی رحلت کے وقت تک، آپ(ص) نے تمام اہم مواقع پر
ایک ہی اواز دی، ناد ِ علی۔
-
آپ(ص) نے دس سالہ علی(ع) کو اپنے مقصدِ اسلام کے اعلان کے وقت بلایا۔
-
آپ(ص) کے قبیلے کے لوگوں کو ایک اللّٰہ کی عبادت کی دعوت دینے کے وقت، یہ تیرہ سالہ علی(ع) ہی تھے جنہوں نے آخری پیغمبر (ص) کی پکار کا جواب دیا۔ علی(ع) سے روایت ہے کہ دعوت بنو ہاشم کے موقع پر
رسول(ص) نے کہا، ”عبدال
مطلب کے بیٹوں، میں کسی ایسے عربی کو نہیں جانتا جو مجھ سے بہتر پیغام لایا ہو۔ مین
تمہارے لئے اس دنیا اور اخرت، دونوں کے لئے بہتری لایا ھوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس
معاملے میں میرا ساتھ دے گا، تم میں سے کون ہے جو میرا بھائ، وصی اور وارث بنے گا۔
سب لوگ خاموش رہے۔ میں (علی) نے، حالاںکر سب سے چھوٹا تھا، اگے بڑھ کر کہا، اے رسول
اللّہ۔ میں اپ(ص) کا مددگار بنوں گا۔ اس پر رسول(ص) نے میری (علی) گردن کے پیچھے
ہاتھ رکھ کر کہا یہ (علی) میرا بھائ، وارث اور وصی ھے، اس کی بات سنو اور اس کی
پیروی کرو۔ اس پر سب ہسنے لگے اور ابو طالب کا مزاق اڑاتے ہوے چل دیے کہ اے ابو
طالب، محمد(ص) نے تم کو تمہارے بیٹے کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند
ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Life of Muhammad, translation of Ibn Ishaq's Sirat
Rasul Allah, Translated by A.Guillaume, pg 118
-
مکّہ سے مدینہ ہجرت کے وقت، آپ (ص) نے علی(ع) کو بلایا اور اپنے بستر پر لیٹ جانے کی ہدایت کی، تاکہ وہ آپ (ص) کے دشمنوں کا مقابلہ کریں، جن کا اس رات آپ(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ تھا، اور علی(ع) پورے دل سے رسول (ص) کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیّار ہوگئے ۔
-
یہ علی(ع) تھے، جن کو نبی الامین (ص) کے پاس رکھوائ گئ امانتیں، آپ (ص) کی مدینے ہجرت کے وقت، متعلقہ لوگوں کے سپرد کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔
-
غزوہء بدر میں، نبی (ص) نے علی(ع) کو لڑنے اور دشمنوں کے لشکر کو ڈرا بھگانے کا حکم دیا جبکہ آپ(ص) کے کافی اصحاب یہ لڑائ محفوظ فاصلے سے ملاحظہ فرما رہے تھے۔
-
احد کی جنگ میں، جب دشمن کا مسلمانوں پر اونچا ہاتھ تھا اور نبی (ص) کی جان کو خطرہ واضح نظر آ رہا تھا، کیونکہ آپ (ص) کے کئ اصحاب اپنی جانیں بچا کر میدانِ جنگ سے بھاگ کر غائب ہو چکے تھے، یہ صرف علی(ع) ہی تھے جنہوں نے نبی (ص) کا ساتھ دیا اور دشمن کے ارادے خاک میں ملا دئے۔
-
خندق کی جنگ میں علی(ع) کو پیکرِ ایمان کی حیثیت سے بلایا گیا تھا تاکہ آپ مجسمِ کفر ، امر بن عبدود ، سے لڑیں اور مایوس مسلمانوں کو فتح دلایئں۔
-
خیبر میں، جب رسول اللّٰہ (ص) کے تمام اصحاب دشمن کو پچھاڑنے کی کوشش کر کے ناکام ہو چکے تھے، علی(ع) کو لاچار اور دل شکستہ مسلمانوں کی مدد کو بلایا گیا اور آپ(ع) نے خود اکیلے ہی خیبر کا قلعہ فتح کیا۔
-
تبوک کے لئے جاتے وقت، نبی (ص) نے علی(ع) کو اپنا نائب مقرر کیا تاکہ آپ(ع) مدینہ کے معاملات کا خیال رکھیں، یہ کہتے ہوئے کہ علی(ع) آپ (ص) کے لئے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کو ہارون سے نسبت تھی۔۔
-
علی(ع) کو سورتہ البرات کی وہ آیات بیان کرنے کے لئے بلایا گیا جن میں بت پرستی کی مکمّل ممانعت تھی، کیونکہ، اللّٰہ کے حکم کے مطابق، صرف رسول (ص) یا علی(ع) ہی، اس آیت کے مفہوم لوگوں تک پہنچانے کے لائق تھے (دونوں ہستیوں کے درمیان مکمل مشابہت کی وجہ سے) ۔ لہٰذا علی(ع) مدینے گئے اور ابوبکر کو فارغ کیا جو پہلے اس کام کے لئے بھیجے گئے تھے۔
محمّد بن اسحاق ، ابو جعفر محمّد بن علی بن الحسین سے ایک روایت
بیان کرتے ہیں، جنہوں نے کہا، جب برات رسول(ص) پر نازل ہوئ، اور آپ(ص) نے ابوبکر کو
لوگوں کے حج کی رسوم دیکھنے کے لئے بھیجا ہوا تھا،
آپ(ص) سے لوگوں نے کہا، اے اللّٰہ کے
پیغمبر(ص)، کیوں نہ یہ پیغام ابو بکر کو بھیج دیا جائے، تو آپ(ص) نے فرمایا، یہ
پیغام میری طرف سے اس وقت تک نہیں مانا جائے گا جب تک میرے خاندان کا کوئ شخص اسکو
نہ پہنچائے ۔
پھر آپ(ص) نے علی(ع)
کو بلایا اور آپ(ع)
سے کہا، ’ یہ حصہ برات کے ابتدائ حصے سے لو اور قربانی کے دن لوگوں میں جب وہ منیٰ
میں جمع ہوں اعلان کرنا کہ کوئ بھی کافر یا جھٹلانے والا جنّت میں نہیں داخل ہوگا،
کوئ بت پرست اس سال کے بعد حج ادا کرنے کا مجاز نہیں ہوگا، کوئ طوّاف برہنہ جسم
نہیں ہوگا، اور جس کسی کا بھی اللّٰہ کے پیغمبر(ص) کیساتھ کوئ عہد ہے وہ اسکی میعاد
پوری ہونے تک قابلِ عمل رہے گا ۔علی(ع) رسول
اللّٰہ(ص) کے ال عبدہ نامی اونٹ پر سوار ہو کر گئے یہانتک کہ آپ راستے میں ابو بکر
سے
مل لئے ۔۔۔۔۔۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ
انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir Ibn Kathir, Tafsir of Surah 9, Verse 3
غور کی بات یہ ہے کہ رسول(ص) کو معلوم تھا کہ لوگ اس ایت کو تب تک نہیں مانیں گے جب
تک اپ(ص) خود یا اپ کا کوئ قریبی رشتے دار اس ایت کو نا پہنچاے۔ ایک ایت کی سچائ کی
دلیل یا تو رسول(ص) کی زبان ہے، یا نفس اررسول کی زبان۔ شاید اس مثال کے بعد بھی
لوگوں کو عقل نہیں ائ۔
-
خانہء کعبہ کی دیواروں پر ثبت نشانوں کے خاکے شاہد تھے کہ رسول پاک (ص) نے علی(ع) کو ان کی خاکہ گری میں اپنے ساتھ شامل رکھا۔ نبی(ص) کا علی(ع) کو اپنے کندھوں پر کھڑا کرنے کا عمل، جبکہ ختم ِ نبوّت کی مہر آپ(ع) کے پیروں کے نیچے تھی، اس بات کا اظہار تھا کہ آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کو اس ہی خانہء خدا، خانہء کعبہ میں، اپنا ساتھی اور وارث بنا دیا تھا۔
-
اس چیز کا آخری اعلان غدیرِ خم پر ہو گیا تھا، اور یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت (ص) نے علی(ع) ہی کو چنا ہے۔ جب اپ(ص) نے علی(ع) کو ان سب کا مولیٰ بنا دیا جو اپ(ص) کو مولیٰ مانتے تھے۔ جن لوگوں نے علی کا انکار کیا، ثابت کر دیا کہ ان کا اصل مولیٰ رسول(ص) نہیں بلکے کوئ اور ہے۔
تو آپ مجھے بتایئں علی(ع) ہی کیوں ؟ کیا نبی(ص) علی (ع) کو دوسروں پر اس لئے فوقیت دیتے رہے کیونکہ وہ آپ (ص) کے چچازاد بھائ اور داماد تھے ؟ یا تمام اہم مواقعے پر علی(ع) کو پکارنا خدائ حکم تھا ؟ اگر آپ مُحمّد(ص) کو متعصب کہتے ہیں تو آپکو ابلیس کے لشکر میں خوش آمدید !
اگر آپ کہتے ہیں کہ علی(ع) خود ہی خاص تھے، تو آپ ایک شیعہ ہیں۔ اور اگر علی(ع) کے فضائل تاریخی روایات میں پڑھ کے، اور آپ(ع) کی اہم آیات میں شمولیت کے بارے میں جاننے کے بعد بھی آپ علی(ع) کو خاص نہیں مانتے ، تو آپ اپنے ساتھ نا انسافی کر رہے ھیں۔۔
بہرحال عام لوگوں میں، قرآنی اور نبوی احکامات کے خلاف، حضرت علی(ع) کے لئے کئ وجوہات کی وجہ سے ایک عجیب نفرت عام تھی۔ جب اپ پڑھیں گے تو اپ جان جائیں گے کہ یہ نفرت فطری تھی۔ اور اسلام کا نام ہے اپنی فطرت مارنا ہے، ایسی فطرت جو رضا الہی کے خلاف ہو۔
-
امام علی(ع) مسلمانوں کے ایک مثالی کردار تھے، جسمیں کوئ شک نہیں کرسکتا تھا ؛ حیدرِ کرّار (جو میدانِ جنگ سے نہیں بھاگتا) ، لا فتّح ( وہ جسے شکتس نہیں ہو سکتی) ، آپ (ع) نے بہت سی غزوات میں کئ مشرکوں اور کفّار کو قتل کیا تھا۔ فتح مکّہ سے پہلے صرف دس ہزار مسلمان تھے، مگر فتح مکّہ کے بعد یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ گئ۔ وہ لوگ جو اسلام کو کئس سالوں تک جھٹلاتے رہے وہ ہی راتو رات مسلمان ہو گئے ! ان مشرکوں کی اکثریت کے بھائ ، باپ، بیٹے اور شوہر امام علی(ع) کے ہاتھوں اسلام و کفر کی جنگوں میں مارے جا چکے تھے۔ وہ اپنے پیاروں کو نہیں بھولے تھے، اور فطری طور پر، انکے قاتل، امام علی(ع) کی نفرت دل میں رکھے ہوئے تھے۔
-
امام علی(ع) اچھائ میں سب سے آگے تھے ، آپ جیسی خصوصیات اور کسی میں موجود نہ تھیں۔ آپس میں رقابت و حسد کا جذبہ عرب لوگوں میں عام تھا۔ آپ (ع) کے گرد موجود اکثر لوگ آپ(ع) سے اور آپ(ع) کیساتھ نبی(ص) کے خصوصی سلوک سے جلتے تھے.
-
امام علی(ع) ہر میدان میں آنحضرت(ص) کا پہلا چناؤ رہے۔ علم بردار، چچازاد بھائ، داماد، جنگوں کا مثالی کردار، حتّیٰ کہ آپ(ص) کے وارث بھی ! مسلمان نبوّت و امامت کو ایک ہی خاندان تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے امام علی(ع) کی مخالفت شروع کردی۔ یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ اگر کوئ لڑکا کسی ادارے کے سربراہ کا رشتہ دار ہوگا اور ادارے کے اساتذہ اس سے خصوصی برتاؤ روا رکھیں گے تو سب ہی اس لڑکے کی قابلیت اور سربراہ کی ایمانداری اور اصول پرستی پر شک کریں گے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ محمّد(ص) اور علی(ع) کیساتھ تھا۔
-
امام علی(ع) نبی اکرم(ص) کے وصال کے بعد روحانیت کے سردار تھے، آپ(ع) اور آپکے شیعوں کا خیال تھا کہ خلافت پر آپ(ع) کا پہلا حق ہے، مگر جب لوگوں نے آپ(ع) کے اس حق کو جھٹلایا تو آپ خاموش رہے۔ عثمان کے قتل کے بعد آپ پر لوگوں نے خود بعیت کی اور آپ کو خلافت کی سیاسی ذمہداریاں سونپ دیں۔ کیونکہ آپ(ع) امامِ زمانہ بھی تھے اور قرآن و شریعت کے محافظ بھی، لھٰذا یہ آپ کا اوّلین فرض تھا کہ آپ(ع) تمام عہدہ داروں کی ذمہداریوں کو جانچیں۔ آپ(ع) خدا کے قانون کے بارے میں پوچھ کچھ کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے تھے کہ آپ(ع) کس سے بات کر رہے ہیں، کیونکہ آپ(ع) کے نزدیک قانونِ خدا سب سے اہم تھا، لہٰذا معاویہ کی بدعنوانی آپ(ع) کی نظر میں آگئ اور آپکے اسکو عہدہبردار کرنے کے ارادے کی وجہ سے اس نے بغاوت کردی اور سفّین کی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ معاویہ نے امام علی(ع) کے خلاف شام میں ایک تحریک شروع کی اور آپ(ع) کے بارے میں منبر پر گستاخیاں کرنا شروع کردیں۔ یہ تحریک اتنی زورآور اور کامیاب ہو گئ تھی کہ جب امام علی(ع) کو مسجد میں گردن میں خنجر مارا گیا اور یہ خبر شام پہنچی تو لوگ حیران ہو گئے کہ علی(ع) جیسا آدمی مسجد میں کیا کر رہا تھا (وہ سمجھتے تھے کہ علی کا مسجد سے کوئ لینا دینا نہیں) ۔ اور یوں نفرت کے اظہار کا طریقہ رائج ہوا۔
-
جب سفّن میں قرآن تیروں پر اٹھا لیا گیا ، امام علی کے اپنے آدمیوں نے آپکو دھمکی دی کہ جنگ روک دی جائے ورنہ وہ امام(ع) پر ہی اپنی تلواریں اٹھا لیں گے۔ ایک فرقہ جو کہ خارجتیوں کے نام سے جانا گیا، وہ سفّن میں آپ (ع) کے خلاف ہوگئے اور بعد میں انہوں نے نہروان لڑی۔ جنگ کے بعد دس سے زیادہ خارجتی نہیں بچے تھے مگر آپ(ع) نے ان کے قیامت تک رہنے کی پیشن گوئ خود کی تھی۔
-
علی(ع) سے محبت ایمان کی علامت ہے، اور علی(ع) کا بغض دل میں رکھنا بندے کی مکاّری ظاہر کرتا ہے، جیسا کہ خود آنحضرت(ص) نے فرمایا۔ میرے خیال میں ایمان والوں کا تناسب ہر دور میں ہی بے ایمان و منافقوں سے کم رہا ہے جب ہی ہم زیادہ لوگوں کے دلوں میں علی(ع) کے خلاف کچھ نہ کچھ نفرت دیکھتے ہیں محبت نہیں۔
اوپر دیئے گےے چھ نقتے ہر منافق کو علی(ع) سے
بغض رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی اسلام کی ازمائش ہے۔ کہ کون رسول(ص) کی کتنی
فرماںبرداری کرتا ہے اور اپنی فطرت کے خلاف جا کر علی(ع) کی سچی محبت اور پیروی
کرتا ہے۔
عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ سے روایت ہے کہ
علی نے فرمایا، میں اللّٰہ کا بندہ ہوں اور اسکے نبی محمّد(ص) کا بھائ، اور میں
صدیقِ اکبر ہوں ۔ جو بھی میرے بعد اس چیز کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ میں
نے دوسرے لوگوں سے سات سال پہلے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔۔
نیچے اسکین صفہ دیا گیا
ھے
Tareekh
e Tabari, Volume 2, page 65
ہم کیا کر سکتے ھیں اگر زکر علی(ع) سن کر ہمارا چہرا مسکرا اٹھتا ہے۔ ہم صرف
رسول(ص) کی پیروی ہی کر رہے ہیں۔
اللّٰہ کے پیغمبر نے کہا، علی سے محبّت ایمان کی نشانی ہے، اور علی
سے نفرت منافقت کی علامت ہے۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ
انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Sahih Tirmidhi, volume 5, page 643
Sunan Ibn Majah, volume 1, page 142
Musnad Ahmad Ibn Hanbal volume 1, pages 84,95,128
Tarikh al-Kabir, by al-Bukhari (the author of Sahih), v1, part 1, p202
حب علی رحمت اللّہ، بغض علی، لعنت
اللّہ، یہ نعرہ بھی رسول(ص) کا دیا ہوا ہی ہے، جب اپ(ص) نے بتا دیا کہ مومن
علی(ع) سے نفرت نہیں کر سکتا، اور منافق علی سے محبت۔
[ Back to top ]
Feel free to
email your comments/replies to this article at
es_ammar@hotmail.com or post a message
at
our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article,
visit Here.