Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

عائشہ کا اسلام میں کردار

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 11
: Uselessness of Shia/Sunni Discussions & Article about Ayesha

 

AboutThe following document is an urdu version of the article, "Ayesha's Role in Islam". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [anicashah@hotmail.com]

 

جیسا کہ پچھلے مضامین میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ شیعاء محمد(ص)   کی بیویوں کی، حضرت خدیجہ (ع) اور ام سلمہ (رض) جیسی امہات المومنین کی، بے انتہا عزت کرتے ہیں۔ لیکن  عائشہ یقیناً اسلام کے مختلف فقوں میں تنازع کی وجہ رہی ہیں۔

 

کیا یہ تنازع اور اس کو اس قدر تول دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ  ابو بکر کی صاحب ذادی تھیں یا یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) کی گیارہ بیویوں میں سے ایک تھیں؟ عائشہ بلا شبہ رسول اللہ (ص) کی بیوی تھیں، اس لئے ان کا شمار امہات المومنین میں بھی لازماً ہوتا ہے۔ تو پھر آخر جھگڑا کس بات پر ہے؟

 

سنی دعویٰ کرتے ہیں کہ

  1.  حضرت عائشہ محمد (ص) کی سب سے پسندیدہ اہلیہ تھیں۔

  2.  حضرت عائشہ دنیا کی بہترین خاتون تھیں اور محمد (ص) کی سب سے مثالی  بیوی تھیں۔

  3.  حضرت عائشہ تمام مومنوں کی ماں ہیں۔

  4.  حضرت عائشہ اور محمد (ص) کی تمام بیویاں اہل البیعت کا حصہ تھیں۔

 

چناچہ میرے سنی بھایئوں کے نزدیک  عائشہ سے محبت اور انکا احترام  ایمان کا لازمی حصہ ہے اور ان کی شان کے خلاف کہی گئی کوئی بھی بات خود محمد (ص) کی بے حرمتی کرنے کی مترادف ہے۔

 

جبکہ شیعت کا خیال ہے کہ

  1.  عائشہ رسول اللہ (ص) کی سب سے پسندیدہ بیوی نہیں تھیں۔

  2.   عائشہ اپنے وقت کی بھی بہترین خاتون نہیں تھیں۔

  3.  عائشہ متبرک اہل البیعت کا حصہ نہیں ہیں۔

  4.  عائشہ رسول اللہ (ص) کی دوسری بیویوں سے حسد کرتی تھیں۔

  5.  عائشہ نے رسول اللہ (ص) کے خلاف منصوبہ بندی کی تھی۔

  6.  عائشہ رسول اللہ (ص) کی دوسری بیویوں کے ساتھ جھگڑا بھی کیا کرتیں تھیں۔

  7. عائشہ رسول اللہ (ص) سے بحث کیا کرتی تھیں اور انکا حسد رسول اللہ (ص) کی فرمانبرداری کرنے میں رکاوٹ بنتا تھا۔

  8.  عائشہ (ص) نے امام علی (ع) سے  جنگ کی، جو کہ خلیفہ وقت تھے اور اولین صحابی میں سے ایک تھے۔

  9.  عائشہ کا جنگ جمل کے دوران گھر سے باہر نکل کر میدان جنگ میں آنا، قرآن کے احکام کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

  10.  عائشہ بے شک امہات المومنین میں سے ایک تھیں پر انکے اعمال یہ طے کریں گے کہ وہ کس قسم کی ماں تھیں، اچھی یا نبیوں کی ان بیویوں کی طرح جو کہ اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں ہونگی۔ مثال کے طور پر حضرت نوح (ع) اور حضرت لوط(ع) کی بیویاں۔

  11. عائشہ پر تنقید، انکی ان حرکتوںکی وجہ سے ہے جو انھوں نے اللہ اور  رسول اللہ (ص) کے احکام کی خلاف ورزی کی اور اہل البیعت کو تکلیف دی۔ اس لئے یہ تنقید کسی بھی صورت میں رسول اللہ (ص) کی بے حرمتی نہیں ہے بلکہ یہ ان (ص) کے لئے اور ان (ص) کے اہل البیعت کے لئے ہماری محبت کی نشانی ہے۔

 

میں کسی بھی طرح سے کسی کے جزبات کو ٹھیس نہیں پہچانا چاہتا مگر ہم سب کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہماری وفاداری کن کے ساتھ ہونی چاہئے۔ کسی غیر معصوم انسان سے حد سے زیادہ جزباتی وابستگی، ہمیں اللہ کی نافرمانی کی طرف بھی لے کر جاسکتی ہے, ہمیں اللہ کے چنے ہوئے لوگوں کے خلاف بھی لےجا سکتی ہے۔

 

پہلی بات
 

نبی مومنوں پر ان کی ذات سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مایئں ہیں۔ اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق ایک دوسرے کے لئے مومنوں اور مہاجروں سے زیادہ حق دار ہیں‘ سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کے لئے پسندیدہ طور پر کچھ کرو۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
 Quran [33:6]

اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ازواج نبی (ص) صرف اس معنی میں امہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ باقی دوسرے احکاموں میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتیداروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لئے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔  ان کی صاحب ذادیاں مسلمانوں کے لئے ماں جائی بہنیں نہیں تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ انکے بھائی بہن مسلمانوں کے لئے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ انسے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی (ص) کو حاصل ہے جس میں لا محالہ حضرت عائشہ(رض) بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ (رض) اور انکی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نطام دین انہی کے گرد گھما دیا، اور اس پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ کو بھی ہدف لعن و طعن بنایا، تو انکی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیہ حائل ہو گئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔
Tafheem ul Quran by Abul ala Maududi, Tafseer of Surah 33 verse 6


 جیسا کہ مودودی لکھتے ہیں کہ یہ آیۃ حضرت عائشہ سمیت رسول اللہ (ص) کی دوسری بیگمات کو "مومنوں کی ماں" (امہات المومنین) کا درجہ اس لئے دیتی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے بعد کوئی بھی ان سے شادی نہیں کر سکتا۔ پوری امّت کی ماں کا درجہ رکھنے کے واسطے، سب ہی ان کے بیٹے ہوئے لیکن کیونکر وہ مومنوں کی حقیقی والدہ نہیں تھیں اس لئے بیٹوں  سے جائداد میں حصہ ملنے کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان کو ہر نا محرم سے پردہ کرنے کا حکم تھا جبکہ ہماری حقیقی والدہ اس پابندی سے خارج ہیں۔ ان باتوں سے یہ کافی واضح ہوجاتا ہے کہ ان کو ام المومنین کا درجہ دینے کے وجہ مومنوں پر ان سے شادی کرنے کو حرام قرار دینا تھا۔ مودودی آگے شیعوں پر حضرت عائشہ کے خلاف جانے پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کس حد تک جائز ہے کس حد تک نہیں، یہ آگے بتایا جائے گا۔

 

ان کے ام المومنین ہونے کا بارے میں ابن کثیر لکھتا ہے 
 

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر فرماتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں، عزت و اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسے خود ان کی مایئں۔ ہاں ماں کے اور احکام مثًلا خلوت یا ان کی لڑکیوں یا بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں۔
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 33, verse 6

 
اپ اپنی حقیقی ماں کی بہن یا بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے جبکہ یہ شرائط ام المومنین کی بہنوں یا بیٹیوں کو شمار نہیں کرتی۔ ابن کثیر کے بطابق بھی ام المومنین کا اپ پر حق وہ نہیں جو اپ کی اصلی ماں کا اپ پر ہے۔

 

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ  عائشہ کے کسی بھی عمل پر اعتراض جائز نہیں کیونکہ وہ ام المومنین ہیں۔ کیا اپنی ماں کے کسی غلط فعل کی نفی کرنا ناجائز ہے؟ کیا ماں ہونے کا مطلب مکمل معصومیت مل جانا ہے؟ یا کیا یہ درجہ  عائشہ کو کوئی بھی کام کرنے کی اجازت دے دیتا ہے؟ چاہے وہ غلط ہو یا صحیح؟ اور ان کو اسی احترام کا مستحق بنا دیتا ہے جس پر معصوموں کا حق ہے؟ 

 

میں مسلمان ہوں۔ اگر میری والدہ حضرت علی (ع) کو برا بھلا کہنے لگیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے۔ چپ چاپ ان کی غلط حرکت کو سہنا چاہئے یا ان سے دوری اختیار کرنی چاہئے اور ان کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے؟ اگر میری والدہ چور ہوں۔ تو کیا مجھے صحیح راستے پر چلنے کی لئے ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے؟ اور اگر وہ کفر کے راستے کو بر قرار رکھتی ہیں تو کیا مجھے اس کفر سے گھن کا اظہار نہیں کرنا چاہئے؟ میں ان سب اعمال کو  عائشہ سے منسوب نہیں کر رہا مگر میرا نقطہ یہ ہے کہ اللہ اور رسول اللہ (ص) کے خلاف جاکر کچھ بھی کرنا غلط ہی ہے۔ اگر میری والدہ کسی مومن کو قتل کر دیں تو کیا تب بھی میں انھیں گناہوں سے مکمل طور پر پاک دیکھوں گا اور ان کے اعمال کی تعریف کروں گا چاہے وہ کتنے ہی معیوب کیوں نہ ہوں؟

 

میں یہ سمجھنے سے قاصد ہوں کہ مومنوں کی ماں ہونے میں کسی کا کیا کمال؟  ۔ مجھے کوئی قرآن، مستند احادیث یا اپنی عقل سے یہ ثابت کردے کہ

 

اگر آپ ان سوالوں میں سے کسی کا جواب نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں یہ پوچھنے کی اجازت دیں کہ کونسا مرطبہ زیادہ بھاری ہے۔ ام المومنین ہونے کا یا پھر کسی نبی کی بیوی ہونے کا؟
 

اللہ کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے۔ وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے ماتحت تھیں۔ پھر انھوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہ آسکے اور کہہ دیا گیا "داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ میں داخل ہو جاؤ"۔
Quran [66:10]

دیکھو ! دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح (ع) کی اور حضرت لوط(ع) جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والیں اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں لیکن چونکہ ایمان میں انکی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انھیں کچھ کام نہ آئی‘ انبیاء اللہ انھیں اخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ اخروی نقصان سے بچا سکے بلکہ ان عورتوں کو بھی جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا۔ 
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 66, verse 10


 
تو پتہ یہ چلتا ہے کہ نہ ہی ام المومنین ہونا کوئی خصو صیت ہے نہ ہی کسی نبی کی اہلیہ ہونا، بلکہ اصل خصوصیت اعمال ہیں۔ اگر رسول اللہ (ص) کی کوئی بھی بیوی اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتیں ہیں تو انھیں اس کے لئے دوگنی سزا ملے گی اور ہمیں ان اعمال پر اعتراض کرنے کی اور ان پر تنقید کرنے کی بلکل اجازت ہے۔ 
 

اے نبی کی عورتوں ! تم میں جو واضح بے حیائی کرے گی اس کا عزاب دوگنا کر دیا جائے گا‘ اور یہ بات اللہ کے کئے آسان ہے۔ اور تم میں جو اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گی اور درست کام کرے گی اسے ہم اس کی اجرت دو بار دیں گے‘ اور اس کے لئے ہم نے عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے۔
 
Quran [33:30-31]


میرا تنقیدکرنے سے کیا مطلب ہے اور کسی سے محبت اور نفرت کرنے کا کیا فلسفہ ہے، یہ جاننے کے لئے "توّلا اور تبّرا" پڑھئے۔
 

حضرت عائشہ بیان کرتیں ہیں کہ میں رسول اللہ (ص) کی کسی بیوی سے نہیں جلتی تھی پر حضرت خدیجہ سے (جبکہ) انکی وفات میری شادی سے پہلے ہو چکی تھی، پر میں نے رسول اللہ (ص) کو اکثر انکا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، اور اللہ نے ان(ص) کو انھیں (حضرت خدیجہ) یہ خوشخبری سنا دینے کو کہا تھا کہ انھیں قصب (قیمتی موتیوں کے بنے ہوئے) کا محل ملے گا۔ اور جب بھی رسول اللہ (ص) کوئی بکری زبح کرتے تھے، تو انکی (حضرت خدیجہ)  سہیلیوں کو حصہ بھیجا کرتے تھے۔  
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Bukhari Volume 5, Book 58, Number 164

حضرت عائشہ بیان کرتیں ہیں کہ میں رسول اللہ (ص) کی کسی بیوی سے نہیں جلتی تھی پر حضرت خدیجہ سے جبکہ میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا تھا، پر میں نے رسول اللہ (ص) کو اکثر انکا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا،اور جب بھی رسول اللہ (ص) کوئی بکری زبح کرتے تھے، تو انکی (حضرت خدیجہ)  سہیلیوں کو حصہ بھیجا کرتے تھے۔ جب میں کبھی یہ کہا کرتی تھی کہ، "(کہ آپ خدیجہ کی بات ایسے ایسے کرتے ہیں) جیسے انکے علاوہ دنیا میں کوئی عورت ہی نہ ہو،" تو وہ کہا کرتے تھے، "خدیجہ ایسی تھی اور ایسی تھی، اور اس سے مجھے اولاد ہے"۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Bukhari Volume 5, Book 58, Number 166


 
یہ روایت صرف یہ ثابت نہیں کرتی کہ  عائشہ حضرت خدیجہ(ر) سے حصد کرتیں تھیں بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ حضرت خدیجہ محمد(ص) کی سب سے پسندیدہ اہلیہ تھیں عائشہ نہیں، جیسا کہ سنی حضرات لاعلمی میں کہتے ہیں۔۔ 
 

عائشہ (اللہ انسے راضی ہوں) نے بیان فرمایا: میں ان عورتوں سے جلتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ (ص) کی خدمت میں پیش کرتی تھیں اور کہا کہ: جب اللہ، عظیم شان والے نے یہ آیت نازل فرامائی: "تم ان میں سے کسی کو تسلیم کر سکتے ہو اور اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؛ اور اگر تم ان میں سے کسی کی بھی خواہش کرو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں" (سورۃ احزاب 33)، میں نے کہا؛ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپکا رب آپکی خواہش پوری کرنے کے لئے جلدی کرتا ہے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
 Sahih Muslim Book 008, Number 3453


 ان کا حسد صرف حضرت خدیجہ (ع) تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ہر اس عورت کو نا پسند کرتیں تھیں جو رسول اللہ (ص) کو شادی کے لئے پیش کش کریں۔ انکی اس ناپسندیدگی کا اندازہ روایت کے آخر میں بیان کردہ جملے سے لگایا جا سکتا ہے۔ 
 

عبید بن عمر نے بیان فرمایا ہے کہ: میں نے عائشہ کو کہتے ہوئے سنا، "رسول اللہ (ص) زینب بنت حجش کے گھر زیادہ دیر رہتے تھے اور انکے ساتھ شہد نوش فرمایا کرتے تھے۔ تو میں نے اور حفضہ نے طے کیا کہ اگر رسول اللہ (ص) ہم میں سے کسی کے پاس بھی آئیں گے تو ہم انسے کہیں گے کہ، " مجھے آپ  سے مغافر (ایک بدبو دار گوند) کی بدبو آرہی ہے۔ کیا آپ (ص) نے مغافر کھایا ہے؟" تو رسول اللہ (ص) ان میں سے کسی ایک کے پاس تشریف لائے اور اس نے ان (ص) سے ایسا ہی کہا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا، "میں نے زینب بنت حجش کے گھر شہد لی تھی پر میں اب سے شہد نہیں پیونگا"۔ تو یہ آیت نازل ہوئی تھی: "اے نبی ! تم اپنے اوپر وہ چیز کیوں حرام کرتے ہو جس سے اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر تم دونو (نبی کی بیویاں) اللہ کی طرف توبہ میں مڑ جاؤ، عائشہ اور حفضہ سے کلام کرتے ہوئے(سورۃ التحریم) ۔ ۔)
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Bukhari Volume 7, Book 63, Number 192
Sahih Bukhari Volume 7, Book 63, Number 193
Sahih Muslim Book 009, Number 3496


 غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ کو رسول اللہ (ص) کا حضرت زینب (رض) کے گھر رکنا کوئی خاص پسند نہیں تھا اسلئے انھوں نے رسول اللہ (ص) کے خلاف منصوبہ بندی کی تاکہ وہ وہاں زیادہ دیر کے لئے نہ جایا کریں۔ اب میں ان سب لوگوں سے یہ سوال کرنا چاھوں گا کہ کیا یہ حرکت رسول اللہ (ص) کی بے حرمتی نہیں ہے؟ 
 

اور جب نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی کو چھپا کر کہی‘ پھر جب اس نے وہ بات آگے بتا دی‘ اور اللہ نے اسے (نبی پر) ظاہر کر دیا۔ تو اس نے وہ بات کچھ تو بتا دی اور کچھ سے کنارہ کر لیا۔ ہاں جب اس نے اس کو وہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی "تجھے یہ کس نے بتائی؟" اس نے کہا "مجھے اس علم والے‘ خبر دار نے بتائی"۔ اگر تم (دونو)  اللہ کے حضور توبہ کرو کہ تمھارے دل جھک گئے ہیں۔ اور اگر تم اس کے خلاف کرو گی تو اللہ‘ جبرئیل اور نیکو کار مومن اس کے رفیق ہیں‘ اور اس کے بعد فرشتے بھی اسکے مددگار ہیں۔  گر وہ تمیہں طلاق دے دے تو ممکن ہے اس کا رب اسے تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں بدل کر دے دے۔ مطیع، مومن، فرماںبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، سفر کرنے والیاں، بیوہ اور کنواریاں۔
Quran [66:3-5]


تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیۃ  عائشہ اور  حفضہ کا ذکر کرتی ہیں۔
 

ابن عباس سے روایت ہے کہ: میں نے عمر سے پوچھنا چاہا تو میں نے کہا کہ، "وہ کون دو عورتیں تھیں جنھوں نے رسول اللہ (ص) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی؟" میں نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ انھوں نے جواب دیا: "عائشہ اور حفضہ"۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Bukhari Volume 6, Book 60, Number 436 

عمر نے بیان فرمایا کہ: رسول اللہ (ص) کی بیویوں نے اپنے حسد کی وجہ سے، ان (ص) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی، تو میں نے انسے کہا کہ، "کہ اگر ایسا ہوا کہ انھوں (ص) نے تمھیں طلاق دے دی تو اللہ انھیں تم سے بہتر بیویاں دے گا"۔ تو یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ (التحریم 5) 
 

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Bukhari Volume 6, Book 60, Number 438

تظاہر کے معنی ہیں کسی کے مقابلے میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: "اگر باہم متفق شوید برر نجا یندن پیغمبر" شاہ عبد القادر صاحب کا ترجمہ ہے: "اگر تم دونوں چڑھائی کرو گی اس پر"۔ مولانا اشرف علی صاحب کا ترجمہ ہے: "اور اگر اسی طرح پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں  کاروایاں کرتیں رہیں"۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے "اگر تم دونوں اسی طرح کی کاروایئاں اور مظاہرے کرتیں رہیں تو"۔
Tafheem ul Quran, by Abul ala Maududi, Tafseer of Surah 66, Verse 4


سورہ التحریم سے ہمیں یہ معلوم پڑتا ہے کہ

  1.  ۔ رسول اللہ (ص) کی  دو بیویوں نے ان (ص) کے خلاف سازش کی اور ان (ص) کو تکلیف پہنچائی۔

  2. ۔ یہ عائشہ بنت ابو بکر اور حفضہ بنت عمر تھیں۔

  3. ۔  عائشہ کو رسول اللہ (ص) کی غیبی جانکاری پر حیرت ہوئی جو کہ ان کے اس سوال سے واضح ہے جو انھوں نے رسول اللہ (ص) سے کیا۔ (کہ ان (ص) کو ان کی کی گئی سازش کا  کیسے پتہ چلا)  

  4. ۔  عائشہ کی حرکت رسول اللہ (ص) کی نا فرمانی تھی۔

  5. ۔ عائشہ اور حفضہ سے  کہا گیا یا توبہ کرلیں یا تو انجام بھگتنے کو تیار ہو جایئں۔ اور انجام تھا اللہ، فرشتوں اور مومنین سے مقابلہ

  6.  ۔ اللہ  فرما رہے ہیں کہ اگر عائشہ اور حفضہ کو رسول اللہ (ص) طلاق دے دیں تو ان (ص) کو   بہتر بیویاں عطا کی جائیں گی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  عائشہ رسول(ص) کی بہترین بیوی تو دور کی بات ہے، اپنے وقت کی بہترین عورتوں میں سے بھی نہیں تھیں۔ اس لئے اگر کوئ سنی یہ کہے کہ عائشہ رسول(ص) کی سب سے بہترین بیوی تھی تو وہ قران کو بھی جھٹلاے گا۔
     

مگر جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی
 حدوں سے نکل جاتا ہے‘ اسے وہ آگ میں داخل کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا‘ اور اس کے لئے ذلت کا عزاب ہوگا۔

Quran [4:14]


رسول اللہ (ص) کا نا فرمان، اگر سچی توبہ نہ کرے تو جہنم کی طرف ہی جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو، آپ، میں، ان (ص) کے صحابہ یا بیویاں۔ رسول اللہ (ص) کی خلاف ورزی، چاہے کسی نے بھی کی ہو، ہماری ملامت ہی کے لائق ہے۔ کیونکہ ان (ص) کے لئے ہماری محبت، ہمیں اب سب سے بیزار ہونے پر مجبور کرتی ہے جنھوں نے انھیں(ص) تکلیف دی۔

 

اب فتنے کے معاملے کی طرف آتے ہیں
 

ابن عمر نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) دروازے پر کھڑے ہوئے، اور مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: فساد اس طرف سے اٹھے گی، یہیں سے شیطان کے سینگھ نمودار ہونگے، اور انھوں(ص) نے یہ الفاظ دو تین مرتبہ دہرائے اور عبید اللہ بن سعد نے اپنی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) حضرت عائشہ کے دروازے پر کھڑے تھے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔ 
Sahih Muslim Book 041, Number 6939


 
ایک سورہ میں رسول اللہ (ص) کی دو بیویوں سے توبہ کرنے کو کہا گیا ہے جسنے نہ کی  انجام بھگتے  گی ۔ یاد ہے؟ 
 

اگر تم (دونو) اللہ کے حضور توبہ کرو کہ تمھارے دل جھک گئے ہیں۔ اور اگر تم اس کے خلاف کرو گی تو اللہ‘ جبرئیل اور نیکو کار مومن اس کے رفیق ہیں‘ اور اس کے بعد فرشتے بھی اسکے مددگار ہیں۔ 
Quran [66:4]

لیتھ بن ابی سُلیم نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ: اور نیکو کار مومن؛ میں علی بن ابی طالب کا بھی شمار ہوتا ہے۔
 
یہ تفسیر کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Tafsir Ibne Kathir, Tafsir of Surah 66, Verse 4


 
لہٰذا اگر رسول اللہ (ص) کی دو بیویوں نے توبہ نہیں کی اور ان (ص) کے خلاف سازشوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی رہیں تو سب سے پہلے انھیں اللہ کا سامنا کرنا پڑے گا، پھر جبریئل (ع) کا اور ایمان والوں میں سے متقّیوں کا، کیونکہ یہ ہی ہیں رسول اللہ (ص) کے محافظ۔ مولا علی (ع) کا شمار متقّیوں میں ہوتا ہے، اس پر شیعا اور سنی، سب متفق ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر عائشہ اور حفضہ باز نہ آیئں تو انکو رسول اللہ (ص) کے محافظوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں علی بن ابو طالب بھی شامل ہیں۔

 

حضرت عائشہ کی امام علی (ع) سے جنگ جمل میں لڑائی، جنگ کی وجوہات سے قطع نظر، اس پیشن گوئ (کہ رسول اللہ کی اس بیوی کو جو کہ سچی توبہ نہیں کریگی رسول اللہ کے محافظوں کا سامنا کرنا پڑیگا)  کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔  جنگ جمل کو دیکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔

 

لیکن حقیقت وہ ہی رہتی ہے کہ  عائشہ امیر المومنین، امام المتّقین، صحابی محمد (ص)، خلیفہ راشد اور رسول اللہ (ص) کے بھائی "مولا علی (ع)" سے جنگ کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکلیں۔

 

اگر میں کسی صحابی رسول (ص)، مثال کے طور پر عمر کو، گالی دوں یا برا بھلا کہوں تو میری یہ حرکت ہر مسلمان (خاص طور پر سنی) کو غصہ دلا دے گی۔ اسی طرح اگر میں مولا علی (ع) کو گالی دوں تو بھی ہر مسلمان غصہ ہو جائے گا۔ یہ اس لئے ہے کہ ہم ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور انکی عزت کرتے ہیں یا انسے محبت اور انکی عزت کرنے کا دعوہ کرتے ہیں۔ تو اگر میرا ان ہستیوں کی زبانی تزلیل کرنا میرے خلاف نفرت کے جزبات کو ابھار سکتی ہے تو جنھوں نے انکو قتل کرنے کی سازشیں کیں، ان کے خلاف میدان جنگ میں تلوار اٹھای، انکے لئے نفرت نہیں جاگنی چاہئے؟ کیونکر لڑائی، جنگ اور قتل کرنے کی سازشیں زبانی تنقید سے کہیں زیادہ سنگین فعل ہیں۔

 

اگر میں جنگ کے میدان میں، فوج کے ساتھ، ہاتھوں میں تلوار لئے ہوئے آؤں اور یہ دعویٰ کروں کہ میرا ارادہ دشمن کو قتل کرنے کا نہیں ہے، تو یا تو میں پاگل ہوں یا اپنے اصل ارادے چھپانا چاہتا ہوں۔ جو لوگ بصرہ میں جمع ہوئے تھے، وہ سب مولا علی (ع) کے خلاف بغاوت کا حصہ تھے۔

 

بلا شبہ یہ وہ ہی علی (ع) ہیں جن کا شمار اہل البیعت میں ہوتا ہے، جو ہر اس شخص کے مولا ہیں جن کے رسول اللہ (ص) مولا ہیں، جن سے محبت کرنا دین کا حصہ ہے۔ یہ میرے ان سے وفاداری، ان سے محبت اور ان کے لئے احترام ہے جو مجھے ہر اس انسان کو ناپسند کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس نے ان سے لڑائی کی ( عائشہ سمیت)۔

 

وہ تمام لوگ جو کہ تمام صحابہ اور رسول اللہ (ص) کی تمام بیویوں سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں کیونکر آپ ایک وقت میں دو ایسے لوگوں سے محبت نہیں کر سکتے جو ایک دوسرے کو قتل کرنے کے در پر ہوں۔ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسکے دشمنوں سے نفرت ضرور کریں گے۔  عائشہ کی امام علی(ع) سے بغاوت یقیناً ایسا عمل تھا جس کی مزمّت کی جانی چاہئے۔ یہ قرآن اور رسول اللہ (ص)کی خلاف ورزی تھی۔  قرآن رسول اللہ (ص) کی بیویوں کو ان (ص) وصال کے بعد گھر سے نکلنے کو منع فرماتا ہے اور رسول اللہ (ص) نے فرمایا تھا کہ حق علی (ع) کے ساتھ مڑ جائے گا۔

 

ایک روایت کے مطابق ام سلمہ بیان فرماتی ہیں
 

علی حق اور قرآن کے ساتھ ہے، اور قرآن اور حق علی کے ساتھ ہیں، اور یہ آپس میں جدا نہیں کیئے جا سکتے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر آیئں۔

یہ
روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
al-Bahrani's Ghâyat al-marâm wa-hujjat al-hisâm, page 539


البحرانی کے مطابق  یہ ہی حدیث سُنّی روایات میں پندرہ مختلف طرح اور شیعہ روایات میں گیارہ مختلف طرح سے محفوظ کی گئ ہے۔ کچھ احادیث میں یہ جُملہ بھی شامل ھے۔

اور جہاں بھی علی مُڑتا ہے حق اس کے ساتھ مُڑ جاتا ہے۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Tafsir al-Kabir, by Fakhr al-Din al-Razi, Commentary of "al-Bismillah"


اسی طرح صحیح ترمزی میں ذکر ہوا ہے کہ
 

اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ: "اے اللہ، علی پر اپنا رحم نازل فرما۔ اے اللہ، حق اور سچ کو ہر حالت میں علی کے ساتھ کر دے"

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih al-Tirmidhi, Volume 5, page 297


لہٰزا یہ تو واضح ہے کہ حق ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رہے گا اور یہ حقیقت ان کے ہر مخالف کو باطل بنا دیتی ہے، چاہے وہ جو بھی ہوں۔ 
 

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی بھڑک نا دکھلاتی پھرو۔ ۔۔۔
Quran [33:33]

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بغیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ مسجد میں نماز کے لئے آنا بھی شرعی ضرورت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔ لیکن انھیں چاہئے کہ سادگی سے جس طرح گھروں میں رہتی ہیں‘ اسی طرح آئیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے لئے ان کے گھر بہتر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرا کرتیں تھیں۔ اب اسلام بے پردگی کو حرام کر دیتا ہے۔ ناز سے اٹھلا کر چلنا ممنوع ہے۔ دپٹہ گلے میں ڈال لیا لیکن اسے صحیح سے لپیٹا نہیں جس سے گردن اور کانوں کے زیور دوسروں کو نظر آیئں۔ یہ جاہلیت کا بناؤ سنگھار تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے۔

Tafsir Ibne Kathir, Tafseer of Surah 33, Verse 33

اصل لفظ "قَرنَ" استعمال ہوا ہے۔ بعض اہل لغت نے اسے "قرار" سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے "وقار" سے۔ اگر اسکو قرار سے لیا جائے تو معنی ہونگے "قرار پکڑو"، "ٹک رہو"۔ اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہوگا "سکون سے بیٹھو" یا "چین سے بیٹھو"۔ دونو صورتوں میں آیت کا منشہ یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے، اس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاھئیں، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاھئے۔ یہ منشاء خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہیں اور بنی (ص) کی احادیث اسکو اور زیادہ واضح کر دیتیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
ایک اور روایت جو بزار اور ترمزی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے نکل کی ہے اس میں وہ نبی (ص) کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ "عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اسکو تاکتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے وہ قریب تر اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں یو"۔ قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمینٹوںکی میمبر بنیں‘ بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں‘ سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں‘ کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پایئں‘ مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمات انجام دیں‘ ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں "مسافر نوازی" کے لئے استعمال کی جایئں‘ اور تعلیم و تربیت کے لئے امریکا اور انگلستان بھیجی جائیں؟ عورت کے بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ اسدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ خود حضرت عائشہ کا خیال اس بارے میں کیا تھا۔ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھد میں‘ اور ابن المنزر‘ ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا‘ کیونکہ اس پر انھیں اپنی وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی تھی۔ 

Tafheem al Quran, By Abul Ala Maududi, Tafseer of Surah 33 Verse 33


قرآن کی مندرجہ بالا آیۃ رسول اللہ (ص) کے گھر کی عورتوں سے مخاطب ہے اور انھیں حکم دیتی ہے کہ:

  1. ۔ اپنے گھر سے نہ نکلیں۔

  2. ۔ اپنے جسم کی، دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح، نمائش نہ کریں۔

  3. ۔ اللہ کی اور اللہ کی نبی (ص) کی پیروی کریں اور دینی فرائض کو پورا کریں۔
     

اے نبی کی عورتوں ! تم کسی بھی دوسری عورت کی طرح نہیں ہو، اگر تم خدا سے ڈرتی ہو تو نرم لہجے میں بات مت کرو ورنہ وہ شخص جس کے دل میں بیماری ہے لالچ کریگا ‘ مگر معقول بات کرو۔ 
Quran [33:32]


قرآن یہ واضح کر دیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی بیویاں باقی عورتوں کی طرح نہیں ہیں اسی لئے انھیں خاص مناقب و مرطبہ حاصل ہے اور چند ایسے احکام ہیں جو ان پر لاگو ہوتے ہیں پر شاید اور مسلمان عورتوں پر نہ ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر کوئی بھی مسلمان عورت اپنے شوہر کے گزر جانے کے بعد دوبارہ شادی کر سکتی ہے مگر رسول اللہ (ص) کی بیویوں کو یہ اجازت نہیں تھی۔
  

 

چنانچہ رسول اللہ (ص) کی بیویوں کو، ہر حال میں، اپنے گھروں کے اندر رہنے کا حکم ہے۔ اور انکو خاص ہدایت ہے کہ وہ زمانہء جاہلیت کی طرح اپنی زینت نہ دکھلاتی پھریں۔ دونوں مفسّر، ابن کثیر اور مودودی، تو یہ پابندی تمام مسلمان عورتوں پر لاگو کرتے ہیں، جو کہ کوئی تک نہیں بناتی۔

 

مودودی صاحب تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسلمان عورتیں کسی گھر کے باہر کا کوئی بھی کام نہیں نپٹا سکتیں۔ وہ پھر اپنے خیال کے خود ہی خلاف جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ جنگ جمل میں اپنے گھر سے نکلیں۔ آگے جاکر وہ پھر اپنے خیال کو خود ہی ردّ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ اپنی غلطی کا احساس کر کے اتنی شرمندہ ہوئیں کہ جب بھی وہ یہ آیۃ پڑھتی تھیں، رونے لگتی تھیں۔  

 

ابن کثیر اور مودودی، دونوں کے خیال میں، مسلمان عورت گھر سے نہیں نکل سکتی سوائے اسکے کہ اسے کسی بہت اہم کام کے لئے نہ جانا پڑے۔ شاید رسول(ص) کے بھائ کے خلاف، خلیفہ وقت کے خلاف میدان جنگ میں انا بہت ضروری کام تھا۔
 

جب حضرت سعدہ (رض)، رسول اللہ (ص) کی اہلیہ، سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ باقی ام المومنین کی طرح حج اور عمرہ (باقاعدگی سے) کیوں نہیں کرتیں؟ انھوں نے فرمایا، " میں نے پہلے حج اور عمرہ ادا کیا ہوا ہے اور اللہ نے مجھے گھر پر رہنے کا حکم دیا ہے۔ خدا کی قسم میں اپنی موت تک گھر سے باہر نہیں نکلوں گی"۔ راوی اضافہ کرتے ہیں  کہ خدا کی قسم سعدہ (رض) نے اپنا گھر نہیں چھوڑا،  اپنی موت کے وقت تک، جب انکا جنازہ نکالا گیا۔"

یہ تفسیر کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Tafsir Durre Manthur Volume 5 page 196, Tafseer of Surah 33 Verse 33


یہ آیۃ خصوصتاً رسول اللہ (ص) کی بیویوں کے لئے تھا اور اس کی تفسیر سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت سعدہ (رض) نے اس آیۃ کو سخت حکم کی طرح اپنایا۔

 

رسول للہ (ص) نے حج الوداع کے موقع پر اپنی بیویوں سے فرمایا تھا کہ یہ انکا پہلا اور آخری حج تھا اور اسکے بعد انھیں اپنے گھر میں رہنا ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ: 
 

حج الوداع کے دوران رسول اللہ (ص) نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ "یہ تمھارا آخری حج ہے، اسکے بعد تم لوگ اپنے جا نماز پر نماز ادا کروگی۔" راوی لکھتے ہیں کہ حضرت سعدہ (رض) اور زینب بنت حجش (رض) کے علاوہ، تمام ام المومنین حج کے لئے جایا کرتیں تھیں۔ ان دونوں کا نہنا تھا کہ "ہمیں کچھ بھی ہلا نہیں سکتا۔"

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Bidaya wa al Nihaya Volume 7 page 104, under the Chapter "Zainab binte Jahsh"


 عائشہ نے اپنا گھر کیوں چھوڑا؟ وہ دعویٰ کرتی تھی  کہ مولا علی(ع) عثمان کے قاتلوں کو پناہ دئے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ چاہتی تھی کہ علی(ع) عثمان کے قاتلوں کو پناہ نا دیں بلکہ سزا دیں۔۔ اس بنا پر بہت سے لوگوں کے لئے، جنگ جمل انصاف کے لئے لگائی گئی صدا تھی۔

 

میرے لئے تو مولا علی (ع) نفس الرّسول ہیں اور انکے دشمنوں سے خود کو علیحدہ کرنے کے لئے یہ ہی وجہ کافی ہے، چاہے دشمنوں کی نیّت اور ارادہ کوئی بھی ہو۔ مگر مباحثے کے لئے میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔  

 

عثمان کا قتل صحابہ کے شہر مدینہ میں ہوا تھا۔ اس وقت عایشہ کہاں تھی جب عثمان کو نظر بند کیا ہوا تھا؟ کیوںکر عثمان کو قتل ایک دن میں ہی نہیں کیا گیا، سنجیدہ صورت حال مہینوں تک تھی۔ اور قتل عثمان میں کس کس کا کتنا ہاتھ ہے، اپ خود کسی پڑھے لکھے سنی عالم سے دریافت کر لیجیے گا۔

 

امام علی (ع) کا  عائشہ کو لکھا گیا خط یہ واضح کرتا ہے کہ وہ غلطی پر تھیں۔
 

جنگ جمل سے پہلے امام علی نے حضرت عائشہ کو خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ "اپنا گھر چھوڑ کر آپ نے اللہ اور اسکے رسول(ص) کی نافرمانی کی ہے۔"

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

al Tadkhirath al Khawwas page 38 Matalib al Sa'ul page 112


 عائشہ نے امام علی (ع) سے کھلی  دشمنی کا مظاہرہ کیا، انکے مرطبے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور انکے خلاف چلائی گئی مہم کو روکنے کے لئے للکارا۔  حضرت عائشہ نے امام علی (ع) کو جوابی خط لکھا وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے
 

ابو طالب کے بیٹے، ہماری ناچاکیاں دور نہیں ہو سکتیں، وقت ہاتھ سے جا رہا ہے اور ہم تمھارے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، تم جو کر سکتے ہو، کر لو۔

یہ تفسیر کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

Matalib al Sa'ul page 116
Fusul ul Muhimma page 72


 
چناچہ امام علی (ع) کے پاس، اس کو مسل دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںرہا تھا۔  عائشہ کا رویہ یہ بات واضح کر چکا تھا کہ انکا اردہ امام وقت کی کھلی خلاف ورزی اور نافرمانی کرنے کا ہے۔ ام المومنین، حضرت ام سلمہ (رض) نے  عائشہ کو خط لکھا تھا، انھیں اس جنگ میں شرکت کرنے سے روکنے کے لئے۔  

 

بہرحال، حضرت عائشہ کا ارادہ عثمان کے قتل کا حساب لینا نہ تھا، کیونکر وہ خود عثمان کی حکومت کے خلاف نکتہ چینی کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔ اس پر آگے تنصرہ ہوگا۔ در حقیقت،  عائشہ اپنے آپ کو امّت کے امام کے طور پر دیکھنا چاہتی تھیں۔ 
 

راوی لکھتے ہیں کہ: میں جمل کے میدان میں تھا کہ میرا گزر ایک شخص کے قریب سے ہوا جو کہ اپنی ایڑیاں رگڑتے ہوئے کوئی نظم پڑھ رہا تھا، ایک اور شخص نے بیان کیا ہے کہ کسی نے اس سے  وہ ہی آدمی جو زمین پر بیٹھا تھا پوچھا ‘تم کون ہو‘ جس پر اسنے جواب دیا ‘میں اس عورت کی فوج میں ہوں جو امیر المومنین بننا چاہتی ہے۔

  یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Tadkhirath al Khawwas page 43 Chapter "Dhikr Jamal


رسول اللہ (ص) نے عورتوں کی حکومت کرنے کو نا پسند فرمایا ہے اور اس کی مزحمت کی ہے۔
 

ابو بکرا بیان کرتے ہیں: ال-جمل کی جنگ کے دوران مجھے ایک بات
 نے فائدہ پہنچایا (ایک بات جو میں نے رسول اللہ سے سنی تھی)۔ جب رسول اللہ (ص) تک یہ خبر پہنچی کے فارس  کے لوگوں نے خسرو کی اپنے اوپر حکمران بنا دیا ہے، انھوں نے فرمایا: "ایسی قوم کبھی بھی سرخرو نہیں ہوگی جو عورت کو اپنا حکمران بناتی ہے
"

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih al Bukhari Volume 9, Book 88, Number 219


اس کے علاوہ  عائشہ پر الّحوّاب کے کتّوں کا بھونکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ  عائشہ ہی وہی بیوی تھیں جس کے بارے میں رسول اللہ (ص) نے اپنے انتقال سے پہلے خبردار کیا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے
 

اسماعیل نے قیس سے روایت کی ہے کہ، "جب حضرت عائشہ بنی
 عامر کے پانی (آبشار) تک پہنچیں، انھوں نے کچھ کتّوں کو بھوکتا ہوا سنا۔ عائشہ نے پوچھا، "ہم کس جگہ پر ہیں؟" انھیں جواب ملا، "یہ الحوّاب کا بانی (آبشار) ہے"۔ پھر انھوں نے کہا، "میں واپس جا رہی ہوں
!" ان کے ساتھ موجود کچھ لوگوں نے کہا "نہیں، اپکو آگے بڑھنا چاہئے۔ پھر مسلمان یہ دیکھیں گے آپ اور اللہ انکے درمیان صلح کر وائیں گے"۔ انھوں نے فرمایا، "میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا تھا کہ، "کہ تب تم (نبی (ص) کی بیویاں) کیا کروگی جب الحوّاب کے کتّوں کو بھونکتا سنو گی؟"

http://ansar.org/english/faq18.htm


اس روایت کی سچائی پر سنی شک نہیں کرتے:
 

الّحوّاب کے کتّوں کے بھونکنے کی کہانی سنیوں کی نوں کتابوں میں نہیں ملتی (صحیح البخاری، مسلم، النسائی، ابن ماجاح، ال ترمزی، ابو داؤد، موواتی امام مالک، امتند احمد اور الّدرانی)۔ سوائے مستند احمد کے۔ احمد نے کہانی دو انداز میں بتائی ہے۔ اور یہ کہانی صحیح ابن حبّان، مستدرک حاکم اور کئی دوسری تاریخ کی کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ حدیث مستند اور سچی ہے۔
 .http://ansar.org/english/faq18.htm


چناچہ ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے اپنی وفات سے پہلے اپنی کسی اہلیہ پر الّحواب کے کتّوں کے بھوکنے کی پیشن کوئی کی تھی، وہ اہلیہ جو کہ غلطی پر ہونگی اور رسول اللہ (ص) کی ناراضگی کمایئں گی۔ اب یہ بات  عائشہ کے رد عمل کی وضاحت کرتی ہے کہ وہ الحّواب کا نام سنتے ہی واپس جانا چاہتی تھیں، مگر فوج کے ساتھ آگے بڑھیں۔ 

 

سنی ان کے اس عمل کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ ان کا ارادہ اچھا تھا۔ ان کے اصلی ارادے کیا تھے، یہ آگے، امام علی (ع) کے خطوط واضح کر دیں گے۔ امام علی (ع) کی خلاف ورزی کرنا، رسول اللہ (ص) کی خلاف ورزی کرنا ہے کیونکہ امام علی

  1. ۔ ہر اس شخص کے مولا ہیں جو رسول اللہ (ص) کو اپنا مولا مانتا ہے۔ علی مولا پرھئے

  2. ۔ علی (ع) نفس الرسول تھے۔ مباحلہ: جھوٹوں پر لعنت پڑھئے

  3. ۔ علی (ع) اہل لبیعت کا حصہ تھے جنھیں ہر رجز سے پاک کیا گیا تھا، جنھیں مباحلہ کے لئے جمع کیا گیا تھا، جبکہ  عائشہ اہل البیعت کا حصہ نہیں تھیں۔ 

 

ارادوں کو تب دیکھا جاتا ہے جب بات اللہ، اسکے نبی (ص) کی اور اہل البیعت کی نہ ہو۔ پر جہاں نا فرمانی ان ہستیوں کی ہو رہی ہو وہاں ارادے نہیں دہکھے جاتے۔

 

جنگ جمل، عثمان کے قتل اور عائشہ کے لگائے گئے الزامات کے بارے میں  امام علی (ع) خود کیا رائے رکھتے تھے، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
 

معلوم ہونا چاہئے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی فوجیں فراہم کر لیں ہیں تاکہ طلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔ خدا کی قسم ! انھوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انھوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انھوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں، جسے انھوں نے خود بہایا ہے ان اگر اس میں میں انکا شریک تھا تو پھر اس میں انکا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہ ہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، میں نہیں، تو پھر اس کی سزا بھی صرف انھی کو بھگتنی چاہئے جو سب سے بڑی دلیل وہ میرے خلاف پیش کریں گے، وہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ وہ اس مال کا دودھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے اور مری ہوئ بدعت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اف ! کتنا نا مراد اس جنگ کا پکارنے والا ہے۔ یہ ہے کون جو للکارنے والا ہے اور کس مقصد کے لئے اس کی بات کو سنا جا رہا ہے اور میں تو اس سے خوش ہوں کہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا تو میں تلوار کی باڑ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے زفا دینے اور حق کی نصرت کے لئے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ ذنی کے لئے میدان میں اتر آوں اور تلواروں کی جنگ کے لئے جمنے پر تیار ہوں۔ رونے والیاں ان کے غم میں رویئں، میں تو ہمیشہ ایسا رہا ہوں کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر ذنی سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجے پر فائز ہوں اور اپنے دین کی حقایت میں مجھے کوئی شک نہیں۔ 
Peak Of Eloquence (Sermon 22): Regarding Those Who Blamed Ali for Uthman’s Murder

ان دونوں (طلحہ اور زبیر) میں سے ہر ایک اپنے لئے خلافت کا امیدوار ہے اور اسے اپنی ہی طرف موڑ کر لانا چاہتا ہے، نہ کہ اپنے ساتھی کی طرف، وہ اللہ کی طرف کسی وسیلے سے توسل نہیں ڈھونڈتے اور نہ کوئی ذریعہ لے کر اس کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف سے (دلوں میں) کینہ لئے ہوئے ہیں اور جلد ہی اس سلسلے میں بے نقاب ہو جایئں گے۔ خدا کی قسم اگر وہ اپنے ارادوں میں کابیاب ہو جایئں تو ایک ان میں سے دوسرے کو جان سے ہی مار ڈالے اور ختم کر کے ہی دم لے (دیکھو) باغی گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے (اب) کہاں ہیں اجروثواب کے چاہنے والے جبکہ حق کی راہیں مقرر ہو چکی ہیں اور یہ خبر انھیں پہلے سے دی جا چکی ہے۔ ہر گمراہی کے لئے حیلے بہانے ہوا کرتے ہیں اور ہر پیمان شکن (دوسروں کو) اشتباہ میں ڈالنے کے لئے کوئی نہ کوئی بات بنایا کرتا ہے۔ خدا کی قسم ! میں اس شخص کی طرح نہیں ہوں گا جو ماتم کی آواز کی طرف کان دھرے، موت کی سنائی دینے والے کی آواز سنے اور رونے والے کے پاس (پرسے کے لئے) بھی جائے اور عبرت حاصل نہ کرے۔
 

Peak Of Eloquence (Sermon 148): About Talha, Zubair And Jamal

جو شخص ان (فتنے انگیزیوں) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوا اسے ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اگر تم میری اطاعت کروگے تو میں انشاءاللہ تمھیں جنت کی راہ پر لگاؤں گا۔ اگر چہ وہ راستہ کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لئے ہوئے ہے۔ رہیں فلاں، تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آگئ ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کر تیں۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے۔ ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔
Peak Of Eloquence (Sermon 156): Regarding Malice Of Ayesha

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس سے ایک آسمان دوسرے آسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کو نہیں چھپاتی۔ خدایا ! میں قریش اور ان کے مددگاروں کے خلاف تجھ سے مدد چاہتا ہوں کیونکہ انہوں نے قطع رحمی کی اور میرے مرطبے کی بلندی کو پست سمجھا اور اس (خلافت) پر کہ جو میرے لئے مخصوص تھی ٹکرانے کے لئے ایکا کر لیا ہے پھر کہتے ہیں کہ حق تو یہی ہے کہ آپ اسے لیں اور یہ بھی حق ہے کہ آپ اس سے دستبردار ہو جایئں۔ وہ (طلحہ۔ زبیر اور ان کے ساتھی) لوگ (مکّہ سے) بصرہ کا رخ کئے ہوئے اس طرح نکلے کہ رسول اللہ (ص) اللہ کی حرمت و ناموس کو یوں کھینچے پھرتے تھے جس طرح کسی کنیز کو فروخت کت لئے (شہر بشہر) پھرایا جاتا ہے۔ ان دونوں نے اپنی بیویوں کو تو گھروں میں روک رکھا تھا اور رسول اللہ (ص) کی بیوی کو اپنے اور دوسروں کے سامنے کھلے بندوں لے آئے تھے ایک ایسے لشکر میں کہ جس کی ایک ایک فرد میری اطاعت تسلیم کئے ہوئے تھی اور برضاء و رغبت میری بیعت کر چکی تھی۔ یہ لوگ بصرہ میں میرے (مقرر کردہ) عامل اور مسلمانوں کے بیت المال لے کے خذینہ داروں اور وہاںکے دوسرے باشندوں تک پہنچ گئے اور کچھ لوگوں کو قید کے اندر مار مار کے اور کچھ لوگوں کو حیلہ و مکّر سے شہید کیا۔ خدا کی قسم اگر وہ مسلمانوں میں سے کسی ایک نا کردہ گناہ مسلمان کو عمداً قتل کرتے تو بھی میرے لئے جائز ہوتا کہ میں اس تمام لشکر کو قتل کردوں، کیونکہ وہ موجود تھے۔ اور انہوںنے نی تو اسے برا سمجھا اور نہ زبان اور ہاتھ سے اس کی روک تھام کی چہ جائکہ انہوں نے مسلمانوں کے اتنے آدمی قتل کر دئے جتنی تعداد خود ان کے لشکر کی تھی جسے لے کر ان پر چڑھ دوڑے تھے۔
 
Peak Of Eloquence (Sermon 172): About Caliphate, Umer and Jamal


مندرجہ ذیل امام علی (ع) کا خط ہے جو انھوں نے امام حسین (ع) اور عمّار یاسر کے ہاتھوں کوفہ کے لوگوں کو بھیجا تھا، بصرہ روانہ ہونے سے پہلے۔
 

خدا کے بندے علی امیر المومنین (ع) کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مددگاروں میں سربر آدردہ‘ اور قوم عرب میں بلند نام ہیں۔ میں عثمان کے معاملے میں تمھیں اس طرحآگاہ کئے دیتا ہوں‘ کہ سننے اور دیکھنے میں کوئی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے اس پر اعتراضات کئے‘ تو مہاجرین میں سے ایک میں ایسا تھا جو زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو‘ اور شکوہ و شکایت بہت کم کرتا تھا۔ البتہ ان کے بارے میں طلحہ اور زبیر کی ہلکی سے ہلکی رفتار بھی تند و تیز تھی‘ اور نرم سے نرم آواز بھی سختی و درشتی لئے ہوئے تھی۔ اور ان پر عائشہ کو بھی بے تحاشہ غصہ تھا۔ چناچہ ایک گروہ آمادہ ہو گیا‘ اور اس نے انھیں قتم کر دیا۔ اور لوگوں نے میری بیعت کرلی۔ اس طرح کہ نہ ان پر کوئی زبردستی تھی‘ اور نہ انھیں مجبور کیا گیا تھا۔ بلکہ انھوں نے رغبت اور اختیار سے ایسا کیا۔ اور تمھیں معلوم ہونا چاھئے کہ دارلحجرت (مدینہ) اپنے رہنے والوں سے خالی ہوگیا ہے۔ اور اس کے باشندوں کے قدم وہاں سے اکھڑ چکے ہیں۔ اور وہ دیگ کی طرح ابل رہا ہے۔ اور فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے۔ لہٰذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے بڑھو اور اپنے دشمنوں سے جہاد کرنے کے لئے جلدی سے نکل کھڑے ہو۔
Peak Of Eloquence (Letter 1): To Kufa Before Jamal


 اب تک تو یہ بات بہت واضح ہو چکی ہے کہ حضرت عائشہ کا امام علی (ع) کے خلاف کھڑے ہونا، انکی امام علی (ع) کے لئے نفرت اور حسد کا نتیجہ تھا، ناکہ انکی عثمان سے وفاداری کا ثبوت۔ کیونکہ عثمان کی زندگی میں وہ خود انکے سب سے بڑے مخالفوں میں سے تھیں۔

 

 موضوع کو سمیٹتے ہوئے،  عائشہ نبی (ص) کی اہلیہ ضرور تھیں مگر وہ بہت جگہ اہل البیعت کے خلاف پائی گئیں۔ ہماری رسول اللہ (ص) کے اہل البیعت کے ساتھ وفا ہمیں انکے چند اعمال کی تنبیہ کرنے پر اور انکے انہی اعمال سے نفرت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

 

اگر  عائشہ نے جنگ جمل کے بعد واقعی سچی توبہ کی تھی اور انھیں اللہ تعالٰی نے معاف بھی کردیا تھا تو وہ لوگ جو انھیں قوستے ہیں انھیں بھی معافی مل جائگی کیونکر یہ عائشہ کا فعل ہی تھا جو ہمیں، انھیں نا پسند کرواتا ہے۔

 

لیکن  عائشہ کے اعمال، صحیح معنوں میں، اللہ کی اور رسول اللہ(ص) کی نافرمانی تھے اور یہ جانتے کے باوجود لوگ انکا اس واسطے احترام کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ(ص) کی اہلیہ ہیں اور اسلئے وہ انکے غلط افعال کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں یہ ہاد رکھنا چاھئے کہ حق علی (ع) کے ساتھ ہے۔ اپنے لئے فیصلہ ابھی کر لیجئے کہ اگر کبھی نوبت آئی تو آپ کیا کرینگے؛ علی (ع) کی فوج میں رہ کر  عائشہ کے خلاف کھڑے ہونگے یا  عائشہ کی فوج میں رہ کر علی (ع) کی خلاف تلوار اٹھائیں گے؟  عائشہ کے لئے ہماری تنقید اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے اپنے لئے فیصلہ کر لیا ہے، کہ ہماری جگہ مولا علی (ع) کی فوج میں ہے۔

 

بہرحال بلا ضرورت ملامت کرنا، خاص کر ان لوگوں کے سامنے جو حضرت عائشہ کو محترم مانتے ہیں، غلط ہے اور اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ یقینن شیعاء کا طریقہ نہیں ہے۔ ہر کسی کو اپنی پسند منتخب کرنے کا حق ہے۔ جو  عائشہ سے محبت کرتے ہیں، انھیں بلکل آزادی ہے ایسا کرنے کی اور ہم انکے جزبات کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ بھی کریں۔   عائشہ کو برا بھلا کہنا کسی کو جنّت میں نہیں لے جائگا، امام علی (ع) سے محبت لے جائگی۔ اور اگر  عائشہ سے نفرت اس محبت کا تقاضہ ہے تو بے شک، علی (ع) کے راستے پر چلنا، انکے نقش قدم پر چلنا، انسے محبت کا زیادہ بڑا تقاضہ ہے۔

 

میں نے سنا ہے  سنی مانتے ہیں کہ کسی بھی صحابی کی پیروی کرنا راہ ہدایت پر لے جاتی ہے کیوں کر سب تاروں کی مانند ہیں۔
 

ابو مریم عبد اللہ یبن زیاد ال اسدی سے روایت ہے کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ مہنچے تو علی نے عمار یاسر اور حسن ابن علی کو کوفہ بھیجا جنہوں نے عوام سے خطاب کیا۔ حسن ممبر کے اوپر تھے اور عمار حسن کی نیچے۔ ہم سب ان کے پاس جا کر جمع ہو گئے۔ میں نے عمار کو کہتے سنا، عائشہ بصرہ پہنچ چکی ہے۔ بیشک وہ اس دنیا میں بھی اور اخرت میں بھی رسول(ص) کی بیوی ہے۔ مگر اللہ نے تم لوگوں کو ازمائش میں ڈالا ہے کہ تم اللہ کی پیروی کرتے ہو یا عائشہ کی۔"

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih al Bukhari Volume 9, Book 88, Number 220


عمار (ر) کے مطابق اللہ کی پیروی کرنا اور عائشہ کی پیروی کرنا دو مختلف راستے تھے۔ اور یہ اختلاف سب صحابہ کے لئے ازمائش بھی ہے جس میں بقول عمار، علی حق پر ہے۔ جب ہم عمار کی بات مانتے ہیں، تب سنی ہماری تنقید کرتے ہیں، اور جب ہم کسی عمار جیسے صحابی کی بات نہیں مانتے، ہمیں تب بھی تنقید کا نشانا بنایا جاتا ہے۔ سنی اپنا زہن بنا لیں کہ تنقید کب کرنی ہے، کسی صحابی کا کہنا مان نے پر، یا نا مان نے پر۔ کیوں کر عمار (ر) عائشہ کو خدا کی نافرمان اور حق کی دشمن کہہ رہے ہیں۔

 

 جس جس نے توّلا کا اسلام میں کردار پڑھا ہے، وہ اس دعا کی  حقیقت سے ضرور متفق ہوگا کہ "اللہ ان پر رحم کرے جو علی سے محبت کرتے ہوں اور ان ہر پھٹکار بھیجے جو علی سے نفرت کرتے ہوں یا ان کے لئے کینہ رکھتے ہوں"۔

 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.

 
But before you set out to download comedy movies, you should know that even the replica watches uk to laughs is not free of treachery. It is important for you to realize that you can’t just go to any website and get yourself a free replica watches sale. This is because what you think is free, is going to cost you your computer’s safety. So the next time you want to catch a comedy, be smart and replica watches sale it through a subscription website. Sites that urge you to watch comedy movies online for free are actually a way to make you compromise your computer’s safety. So go ahead and rolex replica uk movies through subscription websites only! Rolex watches is a pioneer in producing worldwide. The quality of replica watches sale has surprised so many big companies belonging to same industry. Because it doesn’t have a very old history of making rolex replica uk!