Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

اہل ِبعیت کون ہیں؟

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 04
: Eulogy of the Ahlulbayt and their mιtier

 

AboutThe following document is an urdu version of the article, "Who are "THE" Ahlulbayt". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [a_morningglory@hotmail.com]

 


محمد
(ص) کے اہل البیعت سے محبت ضروری ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے اور جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ مگر اہل البیعت میں کون سی شخصیات شامل ہیں، ان (ص) کے قرباء کون تھے، اس پر شاید اختلاف ہے۔۔ 
 

نبی (ص) کے وارث تین طرح کے ہیں، وہ جو حکمت رکھتے تھے، جو عصمت رکھتے تھے اور جو قتبیت و باطنیت کا علم رکھتے تھے، وہ انکے اہل البیعت ہیں۔ 
At-Tafhimatu l-Iahiyah Volume 2 page 14


لہٰزا
شاہ ولی اللہ کے مطابق، رسول اللہ (ص) کے اہل البیعت کے پاس عقل و دانش، عصمت اور روحانی رتبہ ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں رسول اللہ (ص) کے اہل البیعت انکے سب سے قریبی لوگ ہونگے جو ان(ص) کی سی خصوصیات رکھتے ہوں۔ 

 

پہلی بات، ایمان والوں کو رسول (ص) کے قرباء سے محبت کرنے کو کہا گیا ہے، جیسا کہ توّلا اور تبّرا میں بتایا جا چکا ہے۔
 

یہی وہ چیز ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لاتے اور اچھے عمل کرتے ہیں خوشخبری دیتا ہے۔ کہہ دے "میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے رشتے کی محبت کے"۔ اور جو عمدہ کمائی کرتا ہے‘ اس کے لئے ہم اسمیں عمدہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ اللہ بخشنے والا‘ قدردان ہے۔
Quran [42:23]


 اس
حکم کے تصوف کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جو کہ سب طاقت رکھنے والے خدا کی طرف سے ہے، یہ محبت قطعی اور غیر مشروط ہونی چاہئے۔ اللہ کے عدل اور انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے نفس پر یا اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ جن سے ہمیں محبت کرنے کو کیا گیا ہے، یقیناً مکلمل متقی ہونگے , کیونکہ اگر یہ لوگ گناہگار، بد بخت اور اللہ اور اسکے رسول (ص) کے نا فرمان ہوتے، تو ہماری محبت انکے لئے بے معنی ہوتی۔ لہٰذا میں اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ ہمیں ان سے محبت کرنی چاہئے جن سے اللہ  محبت کرتا ہیے اور ان سے دور رہنا چاہئے جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول(ص) کا غضب پایا۔

 

جیسا کہ آیۃ تطہیر والے مضمون میں بیان کیا گیا ہے، یہ آیت اہل البیعت کے لئے نازل ہوئی تھی۔ آیت میں عربی لفظ "اہل البیعت" استعمال ہوا ہے۔ 
 

اور اپنے گھروں میں ٹھری رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی بھڑک نہ دکھلاتی پھرو‘ اور نماز قائم کرو اور زکٰوۃ ادا کرو اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے‘ اے اس کے گھر کے رہنے والو ! ناپاکی دور کردے اور تمھیں خوب پاک صاف کردے۔
Quran 33:33


 چناچہ
یہ وہی اہل البیعت ہیں جنھیں تمام رجز سے پاک کیا گیا تھا اور یہ ہی مکمل  معصومیت کی نشانی ہے، جیسا کہ ضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔

 

ہم یہاں تک یہ اخز کر سکتے ہیں کہ

 

مختلف فقہوں میں اس بات پر تنازع ہے کہ اہل البیعت میں کون سی شخصیات کا شمار ہوتا ہے جنھیں اوپر بتائی گئی فضیلیات حاصل ہیں۔ 

تو محمد (ص) کی بیویاں ہی اس آیۃ کے نازل ہونے کی وجہ تھیں، مگر تعمیم کے تحت اوروں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مگر اگر انکی بیویاں انکے اہل البیعت کا حصہ ہیں تو یہ لقب چند دوسرے لوگوں کو تو زیادہ ذیب دیتا ہے۔  ابن جریر نے بیان کیا ہے کہ صفیہ بنت شیبا نے کہا: عائشہ (رض) نے فرمایا " ایک دن صبح کے وقت حضور پاک(ص) اونٹ کے بالوں سے بنی ہوئی کالے رنگ کی چادر پہنے باہر نکلے تو حسن بن علی آئے، اور رسول اللہ (ص) نے انھیں اپنی چادر میں لپیٹ لیا بھر حسین بن علی آئے، انھین بھی حسن کے ساتھ ہی چادر میں لپیٹ لیا، بھر فاطمہ آیئں، انھیں بھی لپیٹ لیا پھر علی آئے تو رسول اللہ (ص) نے انھیں بھی اپنی چادر میں لے لیا اور پھر فرمایا "اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے‘ یے اس گھر کے رہنے والو! ناپاکی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے"۔

 یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
نیچے سکین صفحہ دیا گیا ہے
 Tafseer Ibn Kathir, Tafseer of Surah 33, Aya 33


 سنیوں کے نزدیک، اہل البیعت میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہوتے ہیں

 

اب ہمارے باس دو جز ہیں یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اہل البیعت آخر ہیں کون۔ ایک ان خوبیوں کی فہرست ہے جو قرآن کی روح سے اہل البیعت میں ہونگی اور دوسری ان خوبیوں کی فہرست ہے جوکہ اوپر بیان کردہ لوگوں میں واقعی موجود تھیں۔  جس شخصیت کا قردار قران کے اہلال بعیت کے تصور سے ہٹ جاے، سمجھ لیں کہ وہ شخصیت کا شمار اہل ال بعیت میں نہیں ہوتا۔

 

ہم نے یہ کہا تھا کہ اہل البیعت پاک لوگ ہونگے جنھیں تمام رجز سے نجات دی گئی ہوگی۔ قرآن کے مطابق؛ 

 

قرآن نے اہل البیعت کو رجز سے پاک قرار دیا ہے لہٰذا اہل البیعت میں ان میں سے کوئی بھی عیب نہ ہوگا۔   
 

اے نبی کی عورتو ! تم میں جو واضح بے حیائی کرے گی اس کا عزاب دوگنا کر دیا جائگا‘ اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے۔ اور تم میں جو اللہ اور اسکے رسول کی تابعداری کرے گی اور درست کام کرے گی اسے پم اسکی اجرت دو بار دیں گے‘ اور اسکے لئے ہم نے عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے۔
Quran [33:30-31]


یہ
دیکھا جا سکتا ہے کہ امکان تھا کہ رسول اللہ (ص) کی بیویوں سے گناہ سرزد ہو جائے ، اور اگر وہ نہ کریں تو انکا انعام دوگنا ہوگا۔ گناہ کرنے کا امکان انکی رجز سے مکمل صفائی کی نفی کر دیتا ہے۔ لہٰذا انکو اس گروہ میں خود ہی شامل کر دینا، جن کو تمام رجز سے پاک کیا گیا تھا، بےبنیاد ہے۔ 
 

اگر تم (دونو) اللہ کے حضور توبہ کرو کہ تمھارے دل جھک گئے ہیں۔ اور اگر تم اس کے خلاف کروگی تو اللہ‘ جبرائیل اور نیکوکار مومن اس کے رفیق ہیں‘ اور اس کے بعد فرشتے بھی اس کے مددگار ہیں۔ 
Quran [66:4]


  قرآن
رسول(ص) کی چند مخصوص بیویوں کو اپنے کسی عمل کے لئے توبہ کرنے کو کہتا ہے (چونکہ انہوں نے رسول(ص) کے خلاف کوئ سازش کی تھی)۔ یہ توبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو گیا تھا جس کی اللہ نے ملامت کی اور اس لئے یہ عمل ناجائز ہوا۔ رسول(ص) کی دو بیویوں کی رسول(ص) کے خلاف سازش رجس نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر یہ بیویاں رجس سے پاک ہوتی تو قطعاً رسول(ص) کے خلاف شازش نا کرتیں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سازش کرنے والے گھر والے کوئ اور تھے، اور تمام رجس سے پاک گھر والے کوئ اور تھے۔

 

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اہل البیعت سے اللہ اور اس کے نبی (ص) محبت کرتے ہیں۔     
 

سہل بن سعد نے بیان کیا ہے کہ اللہ کے نبی (ص) نے خیبر کے دن کہا: میں یہ جھنڈا بلا شبہ اس کو دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ ہمیں فتح دیگا اور جو اللہ اور اس کے نبی (ص) سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ اور اسکا نبی (ص) محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے ساری رات یہ سوچتے ہوئے گزار دی کہ جھنڈا کس کو دیا جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو سب لوگ اس امید میں کہ جھنڈا انھیں دیا جائگا اللہ کے نبی (ص) کے پاس پہنچے۔ انھوں(ص) نے فرمایا: علی بن ابو طالب کہاں ہے? ۔ ۔ ۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Muslim, Book 31, Hadith 5918

اب برّا بن ازیب نے بیان کیا ہے: میں نے حسن بن علی کو اللہ کے پیغمبر (ص) کے کاندھوں پر دیکھا، اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ، میں اس سے محبت کرتا ہوں،  تو بھی اس سے محبت کرتا ہے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Muslim, Book 31, Hadith 5953

مسوار بن مخراماح نے بیان کیا ہے کہ اللہ کے نبی (ص) نے فرمایا: فاطمہ میرا حصہ ہے۔ جو اسے تکلیف دے وہ حقیقتاً مجھے تکلیف دیگا۔.
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
 Sahih Muslim, Book 31, Hadith 6000


  
اہل البیعت کی ایک اور خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ رسول اللہ (ص) کے سب سے قریبی لوگ ہونگے۔
 

اور اگر اس علم کے بعد جو تجھے آیا ہے کوئی تجھ سے جھگڑا کرے تو کہہ دے "آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں‘ اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں‘ اپنے تئیں اور تمھارے تئیں بلائیں پھر گڑ گڑا کر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں
Quran [3:61]


 یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے قریبی لوگ کون تھے۔ یہ آیت مباحلہ کے تاریخ ساز واقعے کو بیان کرتا ہے جو تاریخ کی ہر کتاب، روایات اور تفاسیر میں موجود ہے۔ رسول اللہ (ص) تمام لوگوں کو اسلام کی طرف آنے کی دعوت بھیج رہے تھے۔  9 حجری میں، ایسی ہی ایک دعوت نجران، یمن کے عیسائوں کی کو بھی بھیجی گئی۔ اس پر انکے 60 عالموں کا وفد رسول اللہ (ص) سے بات چیت کرنے آئے۔ جب گفتگو لا حاصل رہی، تب یہ آیت نازل ہوئی جس میں انکو روحانی مقابلے کی دعوت دی گئی جس کے مطابق جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجنی تھی۔ اگلے دن، صبح سویرے، ذی الحجہ کی 24 تاریخ کو، رسول اللہ (ص) نے سلمان کو چنی ہوئی جگہ پر بھیجا تاکہ ان لوگوں کے لئے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے جنھیں رسول اللہ (ص) اپنے ساتھ اپنے بیٹوں، اپنی عورتوں اور اپنے نفس کے لئے لے کر جائیں گے۔ منتخب وقت پر، ایک بڑے مجمع نے رسول اللہ (ص) کو آتے دیکھا۔ امام حسین ان کی گود میں تھے، امام حسین انکی انگلی تھامے ہوئے چل رہے تھے، بیبی فاطمہ زہرا انکے ساتھ چلتی ہوئی اور علی انکے بالکل پیچھے، انکے بیٹوں، عورتوں، اور نفس کی حیثیت سے۔
 

یہ حدیث شوبا کی ذمہ داری پر انہی منتقل کرنے والوں کی کڑی سے بیان کی گئی ہے ۔ آمر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سے بیان کیا ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان نے سعد کو گورنر منتخب کیا اور کہا: تمھیں ابو تراب (حضرت علی) کو گالیاں دینے سے کیا روکتا ہے، تو اس نے جواب دیا: تین باتیں ایسی ہیں جو میں نے رسول اللہ (ص) کو انکے لئے کہتے ہوئے سنا، جسکی وجہ سے میں انھیں گالیاں نہیں دے سکتا اور اگر ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک بھی مجھے اپنے لئے مل جائے تو وہ مجھے لال اونٹھ سے بھی زیادہ عزیز ہو۔ جب رسول اللہ (ص) نے علی کو ایک غزوہ میں پیچھے چھوڑا تو علی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ (ص) آپ مجھے پیچھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تو انھوں (ص) نے جواب دیا: کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمھیں مجھ سے وہ ہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسٰی سے تھی پس میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور میں نے انھیں خیبر کے دن یہ بھی کہتے ہوئے سنا کہ: میں یہ جھنڈا بلا شبہ اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے نبی (ص) سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ اور اسکا نبی (ص) محبت کرتے ہیں۔ حدیث کے راوی نے کہا کہ ہم بےتابی سے انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ (ص) نے کہا: علی کو بلاؤ۔ انھیں بلایا گیا اور انکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ انھوں (ص) نے اپنا لعاب علی کی آنکھوں پر لگایا اور انھیں جھنڈا انھیں دے دیا اور اللہ نے انھیں فتح دی۔ (تیسری دفعہ) جب یہ آیہ نازل ہوئی تھی: "ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" اللہ کے نبی (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے گھر والے ہیں۔
 

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Muslim, Book 31, Hadith 5915


غور
طلب بات یہ ہے کہ آیت کے مطابق "عورتوں" یا "نفوس" کی گنجائش دی گئی تھی مگر رسول اللہ (ص) نے صرف ایک "عورت" اور ایک "نفس"، فاطمہ اور علی کو چنا۔ کیونکہ اس وقت کوئی اور مرد یا عورت ایسے تھے ہی نہیں جنھیں اس مقابلے میں شامل کیا جاسکتا۔ یہ ہی لوگ تنہا سچے اور رسول(ص) کے قریبی تھے۔

 

موقع کی سنجیدگی ایسے لوگوں کو طلب کرتی تھی جوکہ روحانی اور جسمانی، دونو اعتبار سے مکمل طرح سے پاکیزہ ہوں۔ رسول اللہ(ص) نے اللہ کی رہنمائی سے صرف اللہ تعالٰی بہترین تصنیف (اہل البیعت) کو ہی چنا۔ اس واقعہ نے بلا شبہ اہل البیعت کی پاکیزگی، سچائی اور پارسائی کو ثابت کر دیا۔
 

اس آیۃ میں اللہ تعالٰی رسول اللہ (ص) کو "بیٹوں"، "عورتوں" اور "نفوس" کو لے جانے کی اجازت دیتے ہیں؛ اس لئے، اگر رسول اللہ(ص) کے ساتھیوں میں کوئی نفوس یا عورتیں اس قابل ہوتیں کہ اسعظیم، علامتی مقابلے میں حصہ لے سکیں تو انکو ضرور لے جایا جاتا۔ مگر جیسا کہ یہ سب نے دیکھا کہ صرف فاطمہ اور علی (اور انکے دو بیٹوں) کو ہی چنا گیا تھا کیونکہ بیتابی سے انتظار کرتے ہوئے ساتھیوں میں {جن میں تینوں خلیفاء راشد اور نبی (ص) کی بیویاں بھی شامل تھیں} سے کوئی بھی اتنا صادق یا پاک نہیں تھا کہ ایک ایسے واقعے کا حصہ بن سکے جس سے رسول اللہ (ص) کے جانشینوں کی نماندہی کرنا مطلوب تھا۔ لفظ "انفس"، نفس کی جمع ہے جسکے معنی "روح" یا "ذات" کے ہیں۔ اگر شخصی اعتبار سے استعمال کیا جائے تو یہ کسی اور ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بالکل وہی شناخت، مکمل اتفاق اور ہمواری رکھتا ہو۔ چناچہ دونو لوگ سوچ عقل اور مرطبے میں ایک دوسرے کی عکاسی کرتے ہوں۔ اس طرح کے کسی بھی موقع پر ایک دوسرے کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ اور اگر لفظ "نفس" کی تشریح "لوگ" کی جائے تب بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کے لوگ صرف علی ہی تھے۔ 
 
علی، فاطمہ، حسن اور حسین، چار مکمل پاک چنے گئے لوگ ہی رسول اللہ (ص) کا نفس تھے۔ حسن اور حسین، علی کے دو بیٹوں کو "ابنا-انا" ، فاظمہ، علی کی بیوی کو "نسا-انا" اور علی خود "انفسنا" کے طور پر، اللہ کے گروہ کی نشاندہی کرنے آئے۔ صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ جس وقت یہ لوگ چھتر سے باہر آئے، رسول اللہ (ص) نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: "اے اللہ، یہ میرے اہل البیعت ہیں۔ حتا کہ ابن حضم، جو کہ بنی امیہ کے حامی تھے، یہ بیان کرتے ہیں کہ مباحلہ کے وقت محمد (ص) کے ساتھ مقابلے میں حصہ لینے علی، فاطمہ، حسن اور حسین باہر آئے تھے۔ 

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Tafsir Aqa Mahdi Puya, Tafsir of Surah 3, Verse 61


 اس
تفسیر سے یہ بات اور مظبوط ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے قرباء کون تھے اور اپ(ص) جیسی خصوصیات کون رکھتا تھا۔

 

 سنی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ لفظ "اہل البیعت" کے معنی ہیں "گھر کے لوگ"، اس لئے اس میں بیویاں شامل ہونی چائیں۔ 
 

اس کے علاوہ، لفظ "اہل البیعت" عربی زبان میں بالکل اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں لفظ "ہاوز ہولڈ" انگریزی زبان میں استعمال ہوتا ہے، جس میں دونو شامل ہوتے ہیں، آدمی کی بیویاں اور بچے۔ کوئی بھی اپنے "ہاوز ہولڈ" سے بیوی کو نہیں نکال سکتا۔
Tafheem ul Quran, By Abul Ala Maududi, Tafseer of Surah 33 Verse 33


 کچھ
سنی حوالے دینے سے پہلے، میں قرآن سے ایک نقطہ اٹھانا چاہوں گا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ کا بیٹا آپ کے خاندان کا حصہ ہے؟  لفظ "اہل البیعت" کے مختلف لعنٰی نکالے جا سکتے ہیں مگر لفظ "خاندان" پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ تو میں دوبارہ پوچھتا ہوں، کیا آپکا بیٹا آپکے خاندان کا حصہ ہے؟ کیا ہر شخص کا بیٹا اسکے خاندان کا حصہ ہوتا ہے؟ 
 

اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا "میرے رب ! میرا بیٹا میرے گھرانے میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں کو بڑا حاکم ہے"۔ اس نے کہا "اے نوح ! وہ تیرے گھرانے میں سے نہیں‘ اس کا عمل نا درست تھا‘ پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو کہیں نا دانوں میں نہ ہو جائے"۔ 
Quran [11:45-46]


 اگر
آپ کسی سے بھی یہ سوال کریں کہ آیا کہ انکا بیٹا انکے خاندان کا حصہ ہے کہ نہیں، تو یقیناً وہ کہیں گے کہ ہے!! پر قرآن تو کچھ اور کہتا ہے! نوح (ع) کا بیٹا، جو کہ کافر تھا، انکا سگہ بیٹا تھا۔ مگر اللہ کے فیصلے کے مطابق وہ انکے خاندان کا حصہ نہیں تھا۔ لہٰذا رسول اللہ(ص) کی بیویاں انکے خاندان کا حصہ تو ضرور ہیں مگر اس خاندان/اہل البیعت کا حصہ نہیں ہیں جنھیں تمام رجز سے پاک کیا گیا تھا، جنھیں مباحلہ کے لئے لے کر جایا گیا تھا اور جن سے محبت کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

 

مندرجہ ذیل سنی تحریریں مزید واضح کردیں گی. 
 

عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضور پاک(ص) اونٹ کے بالوں سے بنی ہوئی کالے رنگ کی چادر پہنے باہر نکلے تو حسن بن علی آئے، اور رسول اللہ (ص) نے انھیں اپنی چادر میں لپیٹ لیا بھر حسین بن علی آئے، انھین بھی حسن کے ساتھ ہی چادر میں لپیٹ لیا، بھر فاطمہ آیئں، انھیں بھی لپیٹ لیا پھر علی آئے تو رسول اللہ (ص) نے انھیں بھی اپنی چادر میں لے لیا اور پھر فرمایا "اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے‘ یے اس گھر کے رہنے والو! ناپاکی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔

حضرت عائشہ سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی کے بارے میں دریافت کیا تو اپ نے فرمایا، وہ سب سے زیادہ رسول(ص) کے محبوب تھے۔ ان کے گھر میں اپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ اپ کی محبوب تھیں۔ پھر چادر جا واقعہ بیان کر کہ فرمایا، میں نے قریب جا کر کہا ، یا رسول اللہ (ص) میں بھی اپ کے اہل بیت میں سے ہوں، اپ(ص) نے فرمایا، دور رہو، تم یقیناً خیر پر ہو۔


یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih-e-Muslim - Book 031, Number 5955 
نیچے سکین صفحہ دیا گیا ہے
 Tafseer Ibn Kathir, Tafseer of Surah 33, Aya 33

 ۔۔۔۔  : ایک دن رسول اللہ (ص) "خم" نامی ایک چشمے  کے پاس (جو کہ مکّہ اور مدینہ کے درمیان میں واقع ہے) خطبہ دینے کھڑے ہوئے۔  انھوں نے اللہ کی تعریف کی اور خطبہ دیا اور ہمیں نصیحت کی اور کہا: "اور اب اپنے مقصد کی طرف۔ اے لوگو، میں ایک انسان ہوں۔ میرے پاس جلد ہی ملک الموت آئے گا، میرے رب کی طرف سے اور میں اللہ کے بلاوے کے جواب میں تمھیں الوداع کہوں گا، مگر میں تمھارے درمیان دہ بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب ہے، جس میں صحیح ہدایت اور روشنی ہے، تو اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کے ساتھ جڑے رہنا۔ انھوں نے ہمیں قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی ہدایت کی اور پھر کہا: دوسری چیز ہے، میرے اہل البیعت۔ میں تمھیں یاد دہانی کراتا ہوں، ان فرائض کے لئے جو تم پر میرے اہل البیعت کی طرف بنتے ہیں"۔  حسین نے زید سے پوچھا: ان (ص) کے اہل البیعت کون ہیں؟ کیا انکی بیویاں انکے اہل البیعت میں سے نہیں ہیں؟ اس پر انھوں نے جواب دیا: ان(ص) کی بیویاں انکے گھرانے کا حصہ ہیں مگر یہاں پر ان (ص) کے ان گھر والوں کا ذکر ہے جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ تو اس نے دریافت کیا: وہ کون ہیں؟ اس پر انھوں نے کہا: علی اور انکی اولاد، عقیل اور انکی اولاد، اور جعفر کی اولاد اور عباس کی اولاد۔ حسین نے کہا: یہ وہ ہیں جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے؟ زید نے جواب دیا: ہاں۔ 
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih Muslim Book 031, Number 5920

یزید بن حیان نے بیان کیا ہے کہ: ہم ان (زید بن ارقم) کے پاس گئے  اور ان سے کہا۔ آپکو بھلائی نسیب ہوئی کہ آپ کو رسول اللہ (ص) کی صحت میں رہنے کا اور ان (ص) کے پیچھے نماز پڑھنے کا اعزاز نصیب ہوا، باقی کی حدیث وہ ہی پس صرف یہ الفاظ مخلتف ہیں کہ: "لو، میں تمھارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے، اہنچی اور جلیل القدر۔ وہ جو اسی مضبوطی سے تھامے گا، وہ صحیح ہدایت پائے گا اور جو اسے فراموش کر دے گا، وہ غلطی میں رہے گا"۔ اور اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں: ہم نے پوچھا: اہل البیعت میں کون شامل ہیں؟ کیا رسول اللہ (ص) کی بیویاں انکے اہل البیعت کا حصہ نہیں؟ اس پر انھوں نے جواب دیا: نہیں، ایک عورت کسی مرد کے ساتھ (بیوی کی حیثیت سے) ایک مخصوص مدت تک رہتی ہے پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے اور وہ اپنے خاندان، اپنے لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے، اہل البیعت میں انکا اپنا آپ اور انکے وہ رشتہ دار جو خون کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں شامل ہیں اور وہ جن پر ذکٰوۃ حرام ہے۔
 
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
Sahih muslim Book 031, Number 5923


 
 اوپر بیان کردہ کتابوں اور تفاسیر کی روشنی میں، بلاشبہ، یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ محمد (ص) کے اہل البیعت میں انکی بیویوں کا شمار شاید ہو۔ مگر محمد (ص) کے وہ اہل البیعت، جنھیں تمام رجز سے پاک کیا گیا تھا، جنھیں مباحلہ کے لئے بلایا گیا تھا، جن سے محبت کرنا دین کا حصہ ہے اور جن پر درود بھیجنا دین کی بنیاد ہے، ان میں رسول(ص) کی بیویوں کا شمار نہیں ہوتا۔ رسول(ص) کی بیویوں پر درود نہیں بھیجا جاتا، آل رسول پر بھیجا جاتا ہے۔ رسول(ص) کی بیویاں رسول(ص) کے خلاف سازشوں میں ملوث تھیں جو کہ ان کے رجس کا ثبوت ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ان کی بیویوں کو رجس سے پاک نہیں کیا گیا۔ رسول(ص) کی بیویوں کو مباحلہ میں نہیں لے جایا گیا۔

 

  اس لئے وہ اہل بعیت جن سے تمام مسلمان محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، نفس ار رسول علی(ع) ہیں، شہزادہ جنت حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں، خیر النسا العالمین جناب فاطمہ زاہرہ (ع) ہیں۔ یہی وہ پانچ پاک تن ہیں (بشمول رسول(ص)) جن سے محبت اللہ سے محبت کی نشانی ہے، اور جن سے عداوت اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.