Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

راز ِ ہدایت

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 13
: Why Will Quran Mislead You?


AboutThe following document is an urdu version of the article, "Enigma of Guidance".
Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [anicashah@hotmail.com]

 

تقدیر یا اختیار یہ صدیوں پرانی بحث ہے۔ میرا  یہ مضمون لکھنا میرا ذاتی فیصلہ ہے یا میرے مقدر کا نتیجہ، اس پر طویل بحث شروع ہو سکتی ہے، اسی لئے میں اس جھگڑے میں نہیں پڑوں گا۔

 

اس کائینات میں موجود ہر چیز اللہ کی ہے، سب پر اللہ کی حکومت ہے، ہر کام کا ہونا یا نہ ہونا اللہ  طے کرتا ہے، تو پھر آخر انسان اس تمام معاملے میں کہاں آتا ہے؟ اگر انسان کے کئے گئے گناہ اللہ کی مرضی ہے تو آخر اسے سزا کیوں ملے گی؟ انسان کا کیا قصور ہے اگر اس کے گناہ اس کا مقدر تھے؟ مگر کیا واقعی اس کے گناہ اس کی تقدیر تھے یا نہیں، یہ اصل سوال ہے۔

 

میں صرف اس بارے میں لکھنا چاہتا ہوں کہ آدمی کے اپنے ہاتھ میں کیا ہے۔ میں زیادہ دلائل (قرآن یا احادیث) کی مدد نہیں لونگا کیونکہ یہ میرا ذاتی ماننا  اور عقیدہ ہے، اور میرے خیال میں میں نے اسے اپنی زندگی میں محسوس بھی کیا ۔ میرے خیال میں میرے تجربے نے میرے اس عقیدے کو مضبوط بھی کیا ہے۔   اس لئے جو کچھ بھی اب لکھنے جا رہا ہوں اپ کے اپنے عقیدے سے سوال پوچھے گا۔

 

انسان کمزور ہے۔ وہ خود طے نہیں کر سکتا کہ اسے کہاں، کس خاندان میں پیدا ہونا چاہئے، وہ یہ طے نہیں کر سکتا کہ اسے کہاں اور کیسے مرنا ہے، وہ یہ طے نہیں کر سکتا کہ اسے کتنی اولاد ہوگی۔ ہاں، یہاں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر مجھے ایک اولاد چاہئے تو میری کوشش اس حساب سے ہوگی، مگر میں کچھ بھی کر لوں، ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔ اگر اسکی رضا ہے تو شاید آپکو ایک ہی اولاد ہو، اور اگر نہ ہوئی تو شاید آپکی اولاد اس دنیا میں آتے ہی دم توڑ دے۔ یا ہو سکتا ہے کہ آپکو جڑوا بچے ہو جاہیں۔

 

اسی طرح آپکو کب کس طرح رزق ملے گا، یہ آپکے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ امیر ہیں اور آپکا باورچی خانہ ہر قسم کے کھانے سے لدا ہوا ہے، لیکن یہ کھانا آپکو ملنا اللہ کا فیصلہ ہے۔ آپکو اللہ نے دولت، وقت اور دوسرے ذرائع فراہم کئے ہیں تاکہ آپ وہ کر سکیں جو آپکے اختیار میں ہے۔ لیکن اگر سختی سے بات کی جائے، تو اگر اللہ اپنے طریقوں سے، یہ دولت اور وقت آپسے لے لے تو آپ وہ سب کچھ نہیں کر سکیں گے جو اس پیسے اور طاقت سے کر سکتے تھے۔

 

ایک طرح سے، اچھا کرنا یا نیکی کے کام کرنا بھی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں امیر ہوں اور اللہ نے مجھے دولت کے خزانے سے نوزا ہوا ہے۔ ان پیسوں سے میں غریبوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ پر اگر میں غریب ہوں تو مجھے وہ اجر جو ایک امیر کما سکتا ہے، کسی غریب کی مدد کر کے، کبھی نہیں مل سکتا۔ لہٰذا میں نیکی کرنے کے لئے اللہ کے رحم کا محتاج ہوں کہ میں کوئی بھی اچھا کام تب کر سکتا ہوں جب وہ مجھے موقع دے۔ 

 

یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اپنے ارد گرد سب کو راہ راست پر نہیں لا سکے تھے۔ اپ (ص) کے چچا، ابو لحب، کفر کی حالت میں مرا۔ رسول اللہ (ص) کے بہت سے اصحاب نے ان(ص) کے وصال کے بعد، دین میں تبدیلیاں کیں اور وہ کام کئے جو انھے کرنے نہیں چاہئے تھے۔ بلکہ آج بھی، اسلام دنیا کا سب سے بڑا مزہب نہیں ہے، انگنّت کافر موجود ہیں اور تو اور اسلام خود فقہ پرستی کا شکار ہو گیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نا کام ہو گئے؟ ہر گز نہیں۔

 

قرآن میں بہت واضح لکھ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ (ص) پر لوگوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ انکا کام صرف پیغام پہنچانا تھا۔ 
 

اب اگر وہ تجھ سے جھگڑا کریں تو کہہ دے "میں نے اور میری پیروی کرنے والوں نے اپنے آپ کو اللہ کا تابع کردیا ہے"۔ اور انھیں جنھیں کتاب دی گئی تھی اور بے پڑھوں سے کہہ "کیا تم بھی تابع ہوتے ہو?" پھر اگر وہ تابع ہو گئے تو راہ پا گئے‘ اور اگر منہ موڑ گئے تو (اے رسول!) تیرے ذمہ تو صرف پیغام پہنچانا ہے۔ اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔
Quran [3:20]

اور اگر ہم تجھے اس کا ایک حصہ دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں‘ یا تجھے وفات دے دیں‘ تو تیرے ذمہ تو صرف پیغام کو پہنچا دینا ہے‘ اور حساب لینا ہمارا ذمہ ہے۔
Quran [13:40]


 قرآن کی کاملیت کے ساتھ، رسول اللہ (ص) کا فرض پورا ہو گیا اور وہ اپنے مقصد میں بے انتہا کامیاب بھی ہوئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہر کسی کو یدایت کیوں نہ ملی اور جو لوگ رہ گئے ان تک کون ہدایت پہنچائے گا۔ 
 

اللہ نے بہترین بیان نازل کیا ہے‘ ایک کتاب جس کی باتیں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی جاتی ہیں‘ جس سے ان لوگوں کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں‘ پھر ان کے بدن اور ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے نرم ہو جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے‘ جس سے وہ جسے چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے۔ اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے راہ دکھانے والا کوئی نہیں یوتا۔
Quran [39:23]

مگر جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ اندھیروں کو بہرے اور گونگے پڑے ہیں۔ جسے اللہ چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے‘ اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے۔
Quran [6:39]


 
اسلام میں بے شمار فقہ موجود ہیں، سب قرآن کی پیروی کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ پھر بھی سب ایک دوسرے کو ردّ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں جبکہ سب اپنے عقائد کو قرآن کے مواقف ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک ثبوت ہے کہ قرآن اکیلا ہدایت نہیں دیتا، بلکہ ہدایت صرف تب ملتی ہے جب اللہ کسی بندے کو راہ دکھانا چاہے۔ شاید اسی لئے، آج ہمیں ایسے کتنے لوگ نظر آتے ہیں جو قرآن کو یاد کرتے ہیں، اوروں کو سکھاتے ہیں مگر اس پر خود عمل نہیں کرتے۔ اسی لئے ہمیں زاکر نایئک جیسے لوگ نظر آتے ہیں  جو کہ حدیث اور قرآن کی بے حد جانکاری رکھنے کے باوجود یزید لعین پر اللہ کی رحمت نازل ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو کہ اللہ کے نام پر خود کو بمبوں سے اڑا کر ہزاروں معصوموں کی جان لے لیتے ہیں۔ 
 

اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اسکی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور وہ اس پر لعنت کریگا‘ اور اس نے اس کے لئے بڑا عزاب تیار کر رکھا ہے۔
Quran [4:93]


اس بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر لازم کیا کہ جس نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ وہ جان کا بدلہ ہو یا زمین میں فساد مچا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا۔
اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے گویا سب انسانوں کو بچا لیا۔ اور ان کے پاس ہمارے رسول کھلے نشان لے کر آچکے ہیں‘ پھر بھی اس کے باوجود ان میں سے بہت سے زمین میں حد سے نکل جاتے ہیں۔ 
Quran [5:32]


 
موضوع پر واپس آتے ہوئے، ہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ جسے وہ ہدایت دینا چاہے اسے ہی ہدایت ملتی ہے معجزات سے، مخفی یا جادوئی طریقوں سے، جو بھی آپ کہنا چاہیں۔ کیونکہ اللہ  اپنے ہی طریقوں سے کام کرتا ہے اور اسکے طریقے ہماری سمجھ میں نہیں آسکتے۔ کیوںکر اس کی حکمت کا کوئ جواب نہیں۔

  

ہم نے یہ اخز کیا ہے کہ زندگی، موت، دولت، اولاد، خاندان، نیکی کرنے کی توفیق، ہدایت، سب ہمارے مالک کی طرف سے آتی ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔ پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے تو پھر ہمیں سیدھی راہ پر نہ چلنے کی سزا کیوں ملے گی جبکہ اس پر چلنے کی توفیق صرف اللہ کی طرف سے ہی آتی ہے۔ ہمیں نیکی نہ کرنے کی سزا کیوں ملے گی جبکہ نیکی کرنے کا موقع صرف اللہ  ہی دے سکتا ہے۔

 

اپنی مثال کو مخصی تصوّر دینے کے لئے فرعون (لعنتی) پر نظر ڈالتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ  اگر یہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے (بے شک) تو پھر  فرعون کا کیا قصور ہے کہ اسنے حضرت موسٰی (ع) کا پیغام قبول نہیں کیا؟ اس میں اس کا کیا قصور ہے جب اللہ نے ہی اسے ہدایت  نہیں دی؟

 

اسی طرح میں حضرت حرّ بن رحائی کی بات کرنا چاہوں گا، جو یزید (لعنت اللہ) کی فوج کے سربراہ تھے۔ انکے کے لئے جنھیں جانکاری نہیں ہے، حضرت حرّ دس محرم کو یزید (لعنت اللہ) کی فوج کو چھوڑ کر امام حسین کی ظرف آگئے تھے اور کربلا کے اولین شہداء میں سے تھے۔ یزید کی فوج میں مسلمان تھے، نمازی تھے، حاجی تھے، حرّ جیسے ہی لوگ تھے پھر کیوں اللہ نے صرف حرّ اور انکے بیٹوں کو ہی چنّا، وہ بھی اس طرح کہ انھیں دوزخ ملتے ملتے جنّت مل گئی۔ حرّ کو کیوں کس بات پر سرہانا چاہئے جب یہ اللہ کا ان پر کرم تھا کہ انھوں نے حرّ کو حق کی طرف بڑھایا؟ یزید کی باقی فوج پر ہم کیوں لعنت ملامت کریں اور ان سے ہم کیوں نفرت کریں اور اللہ کی طرف سے ان کو سزا کس لئے ملے جب اللہ نے خود ہی انکو ہدایت نہیں دی؟

 

ان دونوں سوالوں کا آسان سا جواب ہے اور مجھے امید ہے کہ اس جواب میں آپ وزن بھی پائیں گے۔ میرے نزدیک، انسان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے سوائے ایک چیز کے۔ اور یہ ہی ایک چیز انسان کو اپنے ہر عمل کا جواب دہ بنا دیتی ہے،  یہ ہی چیز انسان کے ہر معاملے میں خدا کے طرز مداخلت کو طے کرتی ہے۔

 

میری سمجھ اور اصولوں کے حساب سے، یہ ایک چیز، جو میرے بس میں ہے، میری نیّت ہے۔ میں اپنے کسی بھی عمل کا نتیجہ طے نہیں کر سکتا ، وہ اللہ کی مرضی، انکا فیصلہ ہے۔ میں صرف اپنی "نیّت" کو قابو کر سکتا ہوں اور یہ ہی نیّت میری کامیابی کی کنجی بنے گی۔

 

کیسے، یہ آپ پوچھ سکتے ہیں۔ اللہ  مجھے ہدایت صرف تب دیگ ا جب میں واقعی ہدایت چاہوں گا  ۔ ہر کوئی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ ہدایت چاہتا ہے، اللہ کی راہ پر چلنا چاہتا، اسکے پیاروں کی راہ پر چلنا چاہتا ہے، مگر ہر کوئی ایسا کرتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ اپنے آپ سے پوچھیں۔ کیا آپ واقعی ہدایت چاہتے ہیں ؟ اگر ہاں، تو بھر کیوں آپ کا ذاتی تعصب، بغض، آپکے والدین کے طریقے وغیرہ آپ کے رستے میں کھڑے ہیں؟ کیوں آپکے جزبات آپکی عقل کو کمزور کر دیتے ہیں اگر آپ واقعی ہدایت تلاش کر رہے ہیں؟ کیوں یہ خوف کہ آپ بحث ہار جایئں گے، آپکو حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے؟

 

لہٰذا، اللہ اسے ہدایت دے گا جو خالصتاً ہدایت چاہتا ہو، یہ پرواہ کیئے بنا کہ ہدایت کہیں اسکے آبا وجداد کے طور طریقوں کو غلط تو نہیں ثابت کر دیگی۔ یہ میرا عقیدہ ہے کہ اگر آپ واقعی ہدایت چاہتے ہیں تو اللہ آپکی مدد کریگا اور آپکے دل اور سوچ کو وسیع کر دیگا اور آپکو خود علم و دانش کے ذرائع تک پہنچائے گا۔

 

آگے بڑھنے سے پہلے میں اس بات کا جواب دینا چاہوں گا کہ فرعون (لعنت اللہ) کو اللہ نے ہدایت کیوں نہیں دی۔ اور اگر یہ اللہ کا فیصلہ تھا تو کیا یہ فرعون کی غلطی ہے کہ اسنے موسٰی (ع) کے پیغام کو ردّ کیا۔
 

انجیل کے بطابق، موسیٰ کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئ جب مصر کے فرعون نے تمام پیدا ہونے والے اسرائیلی بچوں کو دریاے نیل میں ڈبونے کا حکم دیا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Moses#Life_of_Moses


 یہ سب جانتے ہیں کہ جب نجومیوں نے فرعون کو بتایا کہ ایک نبی پیدا ہوگا جو اسکے زوال کا سبب بنے گا، تو اس نے تمام نومولود بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ جسکے نتیجے میں فرعون(لعنت اللہ) 40 ہزار بچوں کی موت کا ذمہ دار بنا۔ اس کا یہ جرم اسکی ہٹدھرمی اور شرک سے بھی کہیں بڑا تھا۔ اگر فرعون(لعنت اللہ) نے حضرت موسٰی (ع) کے پیغام کو تسلیم کر کے کلمہ پڑھ لیا ہوتا، تو اسکا مطلب ہوتا کہ اللہ نے اسکے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتا۔ یوں تو اللہ  کسی کو کسی بھی وقت معاف کر سکتا ہے مگر یہ نہیں بھولا جا سکتا کہ وہ سب سے بڑا عادل ہے۔   
 

یہ اس کے سبب ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور (یاد رکھو) اللہ بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں‘
Quran [8:51]


اللہ کا عدل یہ قبول نہیں کر سکتا کہ کسی ایسے انسان کو بنا
 کسی سزا کے جنّت مل جائے جس نے 40 ہزار معصوم بچوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہو۔ میرے خیال میں یہ ہی وجہ تھی کہ اللہ نے فرعون کو ہدایت نہیں دی، کیونکہ اسکی نیّت اور ماضی کے عمل ہی اس لائق نہیں تھے کہ اسے ہدایت ملتی۔
 

اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑوں کو اس کا مجرم بنا دیا ہے تا کہ وہاں فریب کریں۔ مگر وہ اپنے ساتھ ہی فریب کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے۔
Quran [6:123]


پس جو صرف دولت مند اور طاقتور ہونا چاہتا ہے، اللہ اسے وقت اور موقع دیتا ہے تاکہ وہ کمزوروں کو دبا سکے اور اسلئے اس کی سزا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ 

 

جہاں تک حضرت حرّ کے ارادے کے بدلنے کا سوال ہے کہ صرف انھوں نے ہی کیوں رسول اللہ (ص) کے نواسے کے لئے جان قربان کر دی، باقی یزید کے لشکر کے سارے حاجیوں اور نمازیوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ جیسا کہ ہم یہ نتیجہ نکال چکے ہیں کہ ہدایت صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے، تو پھر کیوں اللہ نے 30 ہزار مسلمانوں کو، جنھوں نے نمازیں پڑھی تھیں، حج کئے تھے، اہل البیعت سے لڑنے دے کر اپنے سارے اعمال زایع کرنے کا موقع دیا؟  

 

اس کا جواب دینے سے پہلے، ابلیس کی کہانی بیان کرنا ضروری ہے۔ ابلیس (لعنت اللہ)، جو ہزاروں سال تک ہزاروں فرشتوں کا استاد تھا، اس سے زیادہ یہ کون جانتا ہوگا کہ اللہ کی ذات ہی حقیقت ہے۔ مگر صرف ایک حکم پر ایک انکار نے اسے شیطان بنا دیا۔ 
 

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ میں کر گئے‘ سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا ور تکبر کیا اور کافروں میں ہو گیا۔
Quran [2:34]


 
ابلیس متکبر اور مغرور تھا، اور اسکی نیّت کی اس خرابی نے اس کی تمام عبادتوں کو زایع کر دیا۔ مگر چونکہ ابلیس کی عبادت بہت زیادہ تھی اس لئے یہ اللہ کے عدل کے خلاف تھا کہ اگر اسے اس کا اجر نہ ملتا۔ اس لئے اللہ نے اسے وقت اور اختیار دیا، جسکا استعمال کر کے ابلیس نے اللہ کی اور اللہ کے پیغببروں کی نفی کرنا شروع کر دی۔ اور یوں اس کی عبادتوں کا ثواب جلنا شروع ہو گیا۔ جتنا زیادہ مہلت ابلیس کو دی جائگی، اتنا زیادہ وقت وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اتنا زیادہ عزاب اپنے لئے جمع کرتا جائگا۔  

 

اس طرح اللہ جن و انس کے اعمال زائع کر دیتا ہے۔ اگر اللہ کو انسان کی کوئی بات یا نیّت ناگوار گزرے تو وہ اس کے پیچھے شیطان لگا دیتا ہے۔
 

اور جو شخص رحمان کی یاد سے آنکھیں چراتا ہے ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں‘ پھر وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اور وہ تو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ وہ راہ پر ہیں۔
Quran [43:36-37]


یہ شیطان کسی بری عادت کی صورت میں ہو سکتا ہے، کسی بڑے گناہ کی صورت میں ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ ایمان میں وسوسوں کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جس کے ارادے، نیّتیں ٹھیک نہیں ہوتیں، اللہ اس کے پچھلے عمل بھی زائع کر دیتا ہے، شیطان کو اسکے پیچھے لگا کر۔ یہ شیطان اس انسان کو ایسے کام کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے جو اس کو دین نے منع کئے ہیں اور اس طرح اس کے اچھے عمل بھی زائع ہو جاتے ہیں اور آخرت کی سزا میں اضافہ بھی
 

یہ اس لئے ہے تاکہ جو کچھ شیطان ڈالے اسے وہ ان لوگوں کے لئے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں آزمائش بنا دے‘ اور بے شک ظالم دور علیحدگی میں پڑے رہتے ہیں۔
Quran [22:53]


اس ایت کے حصاب سے شیطان ان لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جن کے دل سخت اور منافقت سے بھرے ہوتے ہیں۔

 

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ یہ اللہ ہے جو شیطان کو انسان کے پیچھے لگا دیتا ہے جس کا نتیجہ اس کی تباہی بن جاتا ہے، مگر اس نتیجے کا ذمہ دار جو چیز بنتی ہے اس پر انسان کو پورا اختیار ہے، اور وہ ہیں اسکے ارادے۔ آپ اللہ کو اس طرح یاد کریں جس طرح اسے یاد کرنا چاھئے، تو یقیناً نہ ہی آپ راہ بھٹکیں گے، نہ ہی کوئی گناہ کریں گے۔ اور یہ اس لئے نہیں ہوگا کہ آپ بہت اچھے ہیں بلکہ اس لئے ہوگا کہ اللہ اپنے رحم کو آپ پر برقرار رکے گا۔

 

 چاہے کوئی بے دین، مشرک، ہندو، عیسائی، یہودی کیوں نہ ہو، اگر اس میں کوئی ایک ایسی عادت ہے جو اللہ کو بہت پسند ہو، اللہ اسے نیک راہ کی طرف خود لیکر جائے گا، تاکہ اس انسان کے اچھے عمل زائع نہ ہوں۔ اور اس اچھی عادت کے پائے جانے کا دارو مدار اس انسان کی نیّتوں کی سچائی اور گہرائی پر منحصر ہے۔ 

 

اگر آپ کا دل گندگی سے پاک ہے، اور آپ کی نیّت بے غرض ہے، مطلب کہ آپ نیکی صرف اس لئے نہیں کرتے کہ آپ کو اسکا انعام ملے گا بلکہ اس لئے بھی کرتے ہیں کہ آپ کے دل میں اللہ کا خوف ہے اور انکی پیروی کرنے کی چاہت ہے۔ اور اس لئے بھی کہ آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ نیکی کرنا ہی صحیح طریقہ ہے، چاہے آپ کسی بھی مزہب سے تعلق رکھتے ہوں، اللہ آپ کی مدد ضرور کرے گا، اپنے ہی طریقوں سے۔

 

حضرت حرّ کی جانب واپس آتے ہوئے، میرا ماننا ہے کہ حرّ کی نیّت میں کچھ ایسا تھا جو اللہ کو پسند آیا اور نتیجتاً ان کی عبادات و حج قبول کئے گئے اور انھیں یہ توفیق دی گئی کہ وہ باطل کو چھوڑ کر حق کا ساتھ دیں۔ اسی لشکر کے دوسرے لوگوں کے ارادوں یا نیّت میں ہی ایسا کھوٹ تھا جس نے انکے اچھے اعمال کو ہی ڈھانپ دیا،  جس کی وجہ سے اللہ نے انھٰیں حسین (ع) سے جنگ کرنے دیکر انکی عبادات کو جلا دیا۔

 

یہ ہی وقت ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ ہم جو مانتیں ہیں وہ آخر کیوں مانتے ہیں۔ یہ ہی وقت ہے کہ ہم سچی نیّت سے اللہ سے ہدایت کی التجا کریں تاکہ وہ ہمارے دلوں کو وسوسوں سے پاک کردے۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں نہیں بلکہ ہمارے اختیار میں ہے۔ ہدایت ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ میں نے دو متضاد جملے کیوں لکھے؟ کیونکہ یہ ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے۔ وہ اس طرح کہ اللہ انسان کے لئے کچھ نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ انسان خود یہ ارادہ نہ رکھتا ہو۔
 

اس کے لئے اس کے آگے اور اس کے پیچھے ساتھ رہنے والے فرشتے ہیں‘ جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ اور جب اللہ کسی قوم سے برائی کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ ہٹتی نہیں‘ اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی بھی نہیں ہوتا۔
Quran [13:11]


 
آپ اپنے حالات خود نہیں بدل سکتے۔ یہ صرف اللہ تعالٰی کر سکتے ہیں۔ آپ صرف خالص طور پر یہ ارادہ کر سکتے ہیں اور کوشش کر سکتے ہیں۔ اسکے بعد پریشان ہونا چھوڑ کر، اللہ کو وہ کرنے دیں جو وہ سب سے بہتر کرتا ہے؛ انسان کی مدد۔

 

اس بے انتہا افردافری اور نفرتوں کے دور میں، میں سب سے یہ بنتی کرتا ہوں، ہر فقّہے سے تعلق رکھنے والوں سے، ہر انسان سے، کہ وہ اپنے اندر اتنا صبر و تحمل لاے کہ کسی دوسرے کی بات سن سکیں۔ یہ ہی وقت ہے کہ ہم اپنے جزبات کو مار کر اپنی عقلوں کو تیز کریں اور ارادوں کو پاک کریں۔ جہاں آپ غلط ہیں وہاں اپنی غلطی ماننا، بہادری اور نیّت کی صداقت کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ اگر آپ مباحثے جیتنا چاہتیں ہیں تو جیتیں گے، اگر آپ شہرت پانا چاہتے ہیں تو پا لیں گے مگر ہدایت صرف تب ہی ملے گی جب آپ حقیقی معنوں میں ہدایت طلب کرنے کی نیت رکھتے ہوں اور اس کے لئے سچی دعا کرتے رہتے ہوں۔ 

 

تو جب بھی آپ اللہ کی عبادت کریں اور اسکا شکر ادا کریں اس سب کے لئے جو اسنے آپ کو عطا کیا ہے، تو ایک بار اور اسکا شکر ادا کیا کریں، اس لئے کہ اس نے آپ کو اسکی عبادت اور شکر گزاری کی توفیق دی۔ بہت لوگوں کو یہ موقع نہیں ملتا۔ اور اس کے لئے انکے ارادوں، انکی نیّتوں کو ہی سزاوار ٹھرایا جا سکتا ہے۔ 

 

یہ یاد رکھیے کہ ہدایت روشنی ہے۔ اور روشنی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو کوئی بھی چیز چھپا نہیں سکتی۔ اگر کوئی چیز اسے ڈکھنے کی کوشش بھی کرے گی تب بھی روشنی اس چیز کے اوپر آجایئگی اور اس کے نیچے سایا چھوڑ دے گی۔۔ روشنی ہمیشہ سب سے اوپر رہے گی۔ ہدایت کی اتنی روشنی تو ارد گرد یقیناً ہے کہ سب اسکو دیکھ سکیں۔ پس ضرورت ہے تو اپنے تعصب بھرے عینکوں کو اتار کر اپنی نیّتوں کو جانچنے کی، کہ کیا ہم واقعی حق کے متلاشی ہیں بھی کہ نہیں۔  
 

ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا‘ نہ ان لوگوں کا جن پر غصہ کیا، اور نہ گمراہوں کا۔
Quran [1:6-7]


 
وہ کون ہیں جن پر اللہ نے مھربانی فرمائی؟ وہ کن کا راستہ ہے جس پر چلنے کی ہم توقع اور دعا کرتے ہیں؟ وہ کونسا راستا ہے جو  رسول اللہ (ص) اور انکے اہل البیعت کے راستے سے  سے بہتر ہوگا؟

 

اللہ کی رضا سے، اگر اپکی نیّت سچی ہے تو یقیناً آپ جناب فاطمہ زہرا (ع)، جنت کی عورتوں کی سردار کے گھر پہنچے گے،  کیونکہ یہ ہی گھر ہے جس میں آپ کو رسول اللہ (ص) ملیں گے، وہ انسان جن کے لئے یہ کائنات تخلیق کی گئی۔ فاتح خیبر، علم کا دروازہ ، مولا علی (ع) ملے گے۔ یہ ہی گھر ہے جہاں آپ کو جنت کے شہزادے  امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ملیں گے۔ اور یہ ہی وہ حسین ہیں جن کے بغیر حرّ کی تمام عبادت رائگاں چلی جاتی۔

 

محمد (ص) اور انکے اہل البیعت پر درود اور سلام۔ 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.