We believe that a true and comprehensive
understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the
Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
نافرمانی ِمحمد(ص) اور أُمَّةً مسلم کی رسوائی
The
following document is an urdu version of article, "Suffering
of Muslim Ummah; Disobedience to Rasool (SAW)". Typographical errors in
urdu should be ignored.
Translated by: Anica Shah [a_morningglory@hotmail.com]
ہر مسلمان چاہے کسی بھی فقہ سے تعلق رکھتا ہو نبی محمد(ص) کی پیروی کرنے کا دعوٰی کرتا ہے۔ چاہے کوئی علی(ع) سے محبت رکھتا ہو یا معاویہ سے، قلندروں کی مزارون پر حاضری دیتا ہو، پگڑی باندھتا ہو یا داڑھی رکھتا ہو، سب کے سب خد کو مسلمان کہتے ہیں لحاضہ محمد(ص) کے پیروکار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔
جو محمد(ص) کی پیروی کرتے ہیں انکا انعام کیا ہھے؟
اور ان
کا کہنا کچھ تھا تو یہ تھا کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ کو ہمارے کام میں ہماری
زیادتیوں کو بخش دے اور ھمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافر قوم کے خلاف مدد دے۔
پھر اللّہ نے انہیں دنیا میں بدلہ دیا اور
اخرت میں بہت عمدہ بدلہ ھوگا۔ اور اللّہ نیک و کاروں کو پسند کرتا ھے۔
Quran [3:147-148]
جو در حقیقت محمد(ص) کی پیروی کرتے ہیں انکے لیے دنیا و آخرت دونو میں انعام و جزا ہے۔
اگر یہی بات ہے تو پھر کیوں ہم مسلمانوں کو رنج و مایوسی کاشکار دیکھتے ہیں؟کیوں ہر مسلمان گھرانہ زہنی تناؤ سے نمٹتا نزر آتا ہے؟ کیوں مسلمان ہر جگہ زلت و شکست اٹھا رہے ہیں؟ کیوں مسلمانوں کے بچے اپنے مزھب اور تہزیب سے بےپرواہ ہیں؟ کیوں مسلمان جگہ جگہ ناگہانی موت مر رہے ہیں؟ کہیں خد کش دھماکوں میں کہیں بھگدڑ میں (جیسے حج،جسکا زکر آگے آئے گا)، کہیں زلزلوں یا طوفانوں میں یا موزی امراض سے۔ قرآن کریم کی روح سے تو یہ سب قوموں پر اللہ تعالٰٰی کی طرف سے عزاب نہی تھے؟
اور پھر
یہ تم لوگ ہو جو اپنے لوگوں کو قتل کرتے ہو اور آپس میں ایک گروہ کو انکے گھروں سے
نکال دیتے ہو، دوسروں کی اس گروہ کے خلاف غیرقانونی مدد کرتے ہو اور حدوں سے بڑھتے
ہو۔ اور اگر یہ تمہارے پاس قیدی ہوکر آیئں تو فدیہ دے کر انکو چھڑا لیتے ہو،
حالانکہ انکو چھڑانا تمہارے لیئے ناجائز تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے
ہو اور باقی کا انکار کرتے ہو؟ تو
پھر تم میں سے ایسا کرنے والے کا عذاب کیا ہے سوائے دنیا کی زندگی میں رسوائ کے،
اور روزِ قیامت انکو سخت ترین عذاب دیا جائے گا، اور اللّٰہ جو تم کرتے ہو
اس سے لا علم یا غافل نہیں ہے۔
Quran [2:85]
کیا مسلمان دنیا میں رسوا نہیں ہیں؟ کیا یے رسوائی اور زلت اس دنیا میں ایمان والوں کا انعام یے یا یے محمد(ص) کی نافرمانی کرنے کی سزا ہے؟
اب سوال یہ اٹھتا ھے کہ محمد(ص) کی نافرمانی ہے کیا؟ مسلمان صرف کلمہ پڑھ کر اور پانچ وقت نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے محمد(ص) کی فرمانبرداری کا حق ادا کردیا۔ یہ کلمہ اور یہ نماز محمد(ص) کی فرمانبرداری کا ثبوت نہیں بلکہ وعدہ ہے ایک مسلمان کا خود سے، اللہ سے، اللہ اور اسکے فرشتون کی موجودگی میں کہ وہ محمد(ص) کا فرمانبردار رہے گا کیونکر محمد(ص) کی فرمانبرداری ہی اللہ کی فرمانبرداری کا واحد طریقہ ہے۔
کیا یہ شرمندگی کی انتہا نہیں کہ وہ شخص جو دن میں پانچ مرتبہ اللہ سے اسکے رسول(ص) کی پیروی کرنے کا وعدہ کرتا ہے، مسجد سے نکلتے ہی کسی نامحرم عورت کو دیکھتے ہی للچاتا ہے؟
ہمارے معشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ غریب شخص صرف اپنا پیٹ بھرنے کی فکر میں مبتلا ہے اور اپنے بچوں کو مدرسے یہ سوچ کر بھیجتا ھے کہ اسکے بچے کو پیٹ بھر کر کھانا بھی مل جائے گا اور کچھ دین بھی سیکھ لیگا۔ مگر دین کے نام پر ان معصوم زہنوں میں کیا کیا ڈالا جاتا ہے اسکی کسی کو پرواہ نہیں۔ اور امیر اپنی امیری کے زام میں اس قدر محو ھے کہ اسے غریبوں سے کوئی سروکار نہیں۔ تو اللہ کیوں ایسے لوگوں کو اپنے دین کی طرف بلائے؟ ریئیسون پر اللہ کی لعنت بدمعاش اولاد کی صورت میں ھے۔ ہے۔ کھاتے حرام ہیں، اپنی اولادوں کو حرام سے پالتے ہیں اسی لیے انکا دین سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔
دوسری طرف جو لوگ خود کو مزہبی کہتے ہیں انکے لیے اسلام صرف نمازی ٹوپی پہنے کا اور ٹخنوں کے اوپر شلوار باندھنے کا نام ھے۔
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے دایئں یا
بایئں طرف موڑ لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اللّٰہ میں یقین رکھے اور روزِ
قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور انبیاء پر، اور اپنے مال سے اپنے قریبی
رشتہ داروں اور یتیم اور ضرورتمندوں اور مسافروں اور فقراء اور قیدیوں کو چھڑانے
میں اللّٰہ کی محبت کی خاطر خرچ کرے. اور نماز قائم کرے اور زکوٰتہ ادا کرے، اور جب
وہ عہد کرتے ہیں تو اسکو پورا کرتے ہیں، اور مصیبت اور پریشانی اور جنگ کے وقت صبر
والے ہوتے ہیں ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جو خود کے ساتھ سچّے ہیں، اور یہی برائ یا گناہ کے
خلاف اپنی حفاظت کرتے ہیں۔
Quran [2:177]
مگر قرآن نے نیکی کے کچھ اور ہی پیمانے دیئے ہیں۔ اسکے مطابق درحقیقت نیک وہ ہیں جن کا ایمان مکمل ہو اور انکے اعمال اس بات کی عکاسی کرتے ہوں۔
تو بھر کیوں ہمارے مولویوں نے اسلام کا مفہوم صرف اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف موڑنا بنادیا ھے؟ کہیں اسلیے تو نہیں کہ وہ خود اللہ کے دین کی صحیح سمجھ سے محروم ہیں۔ کیا یہ اللہ کا انعام ہوتا ہے ایمان والوں پر؟
اللہ کی طرف سے بہترین تحفہ اسکے دین کی صحیح سمجھ ہے جو صرف انکو حاصل ہے جن پر اللہ کا کرم ہو۔
تو کیا
ان کو اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے ھم نے کتنی ہی نسلوں کو جنکے ٹھکانوں
میں وہ چلتے پھرتے ھیں، ہلاک کر دیا۔ بے
شک اس میں سبجھداروں کے لیئے کئی نشانیاں ھیں۔
Quran [20:128]
اپنے موضوع پہ واپس آتے ہوئے،
یہ جاننا
بہت اہم ہے کہ خدا کی طرف سے سزا اور آزمائش اور موت اور شہادت میں کیا فرق ہے۔ کیونکر ہمیں اپنے والدین سے محبت ہے اسلیئے ہمارے نزدیک نہ وہ کبھی کوئی گناہ کرسکتے
ہیں نہ ہی جہنم میں جل سکتے ہیں، اسلیئے ہم انکی سزائوں کو آزمائش اور انکی حادثاتی
اموات کو شہادت کا نام دے دیتے ہیں۔
کون اپنی سزا کاٹ رہا ہے اور کون شہید یوتا ہے
یہ تو ہم نہیں جان سکتے مگر ایک بات تو طے ہے
اس کے لئے اس کے اگے اور اس کے پیچھے ساتھ
رہنے والے فرشتے ھیں جو اللّہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ھیں۔ بیشک اللّہ
کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اپ کو نا بدلیں۔ اور جب اللّہ کسی قوم سے
برائی کرنے کا ارادہ کر لیتا ھے، تو وہ ہٹتی نہیں، اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی
بھی نہیں ہوتا۔
Quran [13:11]
یہ
اس لئے کی اللّہ ایمان والوں کا رفیق ھے اور کافروں کا کوئی رفیق نہیں۔
Quran [47:11]
سائنس کا قردار ھم نظر انداز نئیں کر سکتے مگر مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ ماننا ہے کہ ایران اور پاکستان میں وہ زلزلہ جسنے ہزاروں کا نام صفحہ حستی سے مٹا دیا، اللہ کا حکم تھا۔ وہ سونامی جسنے انڈونیشیا کو تباہ کردیا، اللہ کا حکم تھا۔ جو لوگ ایڈز اور کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں انکا انفیکشن بھی اللہ کا ہی حکم ہوتا ھے۔ کیا اللہ ہمارا محافظ نہیں ھے؟ اگر ھے تو پھر جس طرح گناہ گار کافر و فاسق ناگہانی اپنی جان کبھی زلزلوں میں، کبھی حادثات میں، کبھی موزی امراض سے گواہ بیٹھتھے ہیں۔ اسی طرح سچے مسلمان بھی جگہ جگہ ان مصائب کا شکار نظر آتے ہیں۔ پھر آخر ان دونوں , خدا کے پیروکار اور نافرمان, میں فرق کیا ہوا؟
اگر اللہ مومنوں کا محافظ ھے اور فرشتے انکی حفاظت کرتے ہیں تو اس حفاظت کا مطلب یقینن دشمنوں سے، قدرتی آفات سے، گناہوں سے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچے رہنا ہی ھے۔ اگر کوئی ان سب سے بچا ہوا نہیں ہے تو اسکا مطلب ھے کہ وہ اللہ کی حفاظت اور فرشتوں کی پہرےد اری میں نہیں ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو لوگ حج کے دوران بھگدڑ میں مارے جاتے ہیں ہم انہیں شہید کا درجہ دیکر بدر کے شہداٴ(جن کا مقصد ہی شہادت حاصل کرنا تھا) کے برابر کھڑا کر دیتے ہیں۔ کیا ان حاجیوں نے یونہی مرنا چاہا تھا یا محض حادثے کا شکار ہوگئے؟ کسی نبی یا امام کے لیئے یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ کسی موزی مرض کا شکار ہو کر یا کسی قدرتی آفت کی لپیٹ میں آکر مارے جائیں گے۔ تو جب یہ لوگ اللہ کی حفاظت میں رہتے ہوئے ہر بلا و آفت سے محفوظ رہے تو وہ لوگ کیوں نہیں جو انکی سچی پیروی کرتے ھیں؟ اس سے ےہ بات ثابت ھوتی ھے کہ پیروی کرنا اور ھوتا ھے اور دعویٰ کرنا اور۔
حقیقت یہ ھے کہ ہمارے نزدیک ہر وہ شخص مؤمن ھے جسنے داڑھی رکھی ہوئی ہو اور ہمارے ساتھ اچھا چلتا ہو۔ مگر اللہ کے نزدیک کسی کے مؤمن ہونے کے پیمانے اور ہیں اور وہ صرف انہی کی حفاظت کرتا ہے جن کو اس کی ذات پر پورا یقین ہو۔
یہ بحث کی جا سکتی ھے کہ مصیبت ذدہ اپنے اعمال کی سزا کاٹ رہا یا آزمائش سے نمٹ رہا ھے۔ کسی مصیبت کے آزمائش ہونے کی دو نشانیاں ہیں
-
جو شخص آزمائش سے گزر رہا ہوگا اسے بلاشبہ خبر ہوگی کیونکر ہر کوئی اپنے اعمال سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ محمد(ص) کی کس قدر پیروی کرتا ھے۔
-
وہ شخص جسکے پاس سب کچھ ہے سوائے سکون کے اللہ کی آزمائش سے نہیں گزر رہا ھوتا بلکہ اس کی سزا سے۔ اسکی مصیبت اسکی سزا ہے۔ پر اگر کوئی مصیبتوں میں دھس کر بھی مطمیئن ہو تو وہ یقیناً آزمائش سے گزر رہا ہوگا۔ کیونکر دلی سکون اور اطمینان انہی کو حاصل ہوتا ہے جن پر اللہ کا رحم و کرم ہو۔
کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کا خون بکریوں اور چوبائیوں کی طرح بہہ رہا ہے؟ کبھی عراق میں، کبھی فلسطین میں، کبھی کشمیر اور پاکستان میں، وہ بھی مسلمانوں اور غیر مسلمان دونو کے ہاتھوں۔
اور ہم
نے بیت سے جن و انس کو جہنم کے لئے ہی پیدا کیا ھے،
ان کے دل ہیں جن سے وہ سوچتے نہیں، ان کی
انکھیں ھیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ھیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ چوپائیوں
کی طرح ھیں بلکہ زیادہ گمراہ ہیں۔ وہی بے خبر لوگ ھیں۔
Quran [7:179]
کیا ہم بے خبر لوگ نہیں ھیں، جو اخرت سے، خدا کے عدل سے، علم سے بے خبر ھیں؟
اگر نہیں ہیں تو کیا ہم یہ بھول نہیں گئے کہ ہمیں ایک دن اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانا ہے اور روز آخرت میں اٹھ کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے؟ اگر ہم بے خبر نہیں ہیں تو
-
کیا ہم اپنے عزوزواقارب سے حسد نہیں کرتے؟
-
کیا ہم اپنی اولاد کی زبردستی (انکی مرزی کے خلاف) شادیاں نہیں کراتے؟ اور ان کی شادیوں میں فضول تاخیر نہیں ڈالتے؟
-
کیا ہم اپنے اسکول اور کالجوںکے امتحانات میں نقل نہیں کرتے؟
-
کیا ہم عورتوں کو نہیں گھورتے؟
-
کیا ھم انٹرنیٹ اور ٹی وی پر ننگی عورتیں نہیں دیکھتے؟ کیا ہم انکھ کا اور ہاتھ کا زنا نہیںً کرتے؟ اس کے بعد اس عمل کو حقیر تصور کرتے ھوئے فخر سے دوستوں میں اس کا زکر نہیں کرتے؟
-
کیا ھم شادی سے پہلے اور شاید بعد بھی، محبوب و محبوبہ نہیں رکھتے، اور اس کو غریب یا حقیر نہیں سبجھتے جس کی کوئی گرل فرینڈ یا بوئے فرینڈ نا ھو؟
-
کیا ہم محبت کے نام پر اپنی زندگیاں برباد نہیں کر رہے؟
-
کیا ہم نماز پڑھنے کے باوجود زکوٰۃ اور خمس دینے میں کوتاہی نہیں کرتے؟
-
کیا ہم شادی بیاہ میں بھرے مجمع کے سامنے نہیں ناچتے؟
-
کیا ہم غیبت نہیں کرتے؟
-
کیا ہم اورون کے حقوق نہیں مارتے؟
-
کیا ہمارے کاروبار سود کے دم پر قائم نہیںہیں؟
-
کیا ہم لوگوں کے تقوٰی سے زیادہ انکی دولت اور دنیاوی رطبے کو سلام نہیں کرتے؟
-
کیا ہم غریب کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے؟
-
کیا ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے اور اپنے سے الگ لوگوں کا مزاق نہیں اڑاتے؟
-
کیا ہم ناجائز قیمتوں پر اشیاء فروخت کر کے مجبور کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتے؟
-
کیا ہم ایک دوسرے سے نفرت کر کے مزہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے؟
-
کیا ھم درباروں اور مزاروں پر حاضری دینے نہیں جاتے، ان کے دربار جن کا دین میں کوئی اہمیت نہیں ھے؟ اور اسی نظرانہء عقیدت کے چکر میں ھم ان درباروں میں ھونے والی غیر اسلامی عملوں کا حصہ نہیں بن جاتے، جیسے کہ ناچ گانا، منشیات اور زنا کا کاروبار؟
-
کیا ہم صحابہ کو اور عام لوگ جو اپنے اعمال کے جوابدہ خد ہونگے، اہل بیعت (جن پر ہم درود بھیجتے ہیں) کا درجہ نہیں دیتے؟
-
کیا ہم شیعہ یا سنی مولویوں کی اندھی پیروی نہیں کرتے؟
حقیقت یہ ھے کہ ہم مسلمان تو ہیں پر کسی نہ کسی طرح محمد(ص) کے نافرمان ہیں. ہم لالچی ہیں اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے۔ بڑی بڑی ہوٹلوں میں کھانا تو کھا لیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کھانا ہمیں اسی ذات نے دیا ہے۔ ہم اپنی موت کو بھول گئے ہیں اور اس ہی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہم محمد(ص) کے نافرمان ہیں اس رویہ کے ساتھ رہتے ھیں کہ جب آخرت آئے گی تب دیکھا جائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالٰی ہمیں رسوا کرتے ہیں اور سزا دیتے ہیں۔ کبھی حادثاتی موت کی صورت میں یا کبھی کسی قدرتی آفت کی صورت میں۔
ھم ہی وہ چوپائے ھیں جن کے لئے ان کی بے خبری کی وجہ سے حلاکت ھے۔ مگر ہم اس بات کا احساس نہیں کرتے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں۔ جب اللہ کے دین کو سمجھنا ہمارے ہاتھوں میں ھی نہیں ھے۔ جب ہمارے اعمال اور ایمان اس لائق ہی نہیں ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے دین کی سمجھ سے نوازے تو پھر سمجھ کیسے آسکتی ہے۔ اسی لئے ہم جگہ جگہ بکریوں اور چوپائیوں کی طرح بھٹکتے نظر آتے ہیں کبھی غریبوں کو لوٹنے کے لئے کبھی کمزورون کو دبانے کے لئے اور کبھی عورتوں کا گوشت نوچنے کے لئے۔
کیونکر ہم حرام کما کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور اسی پیسے کی وجہ سے مغرور ہو جاتے ہیں، تو اللہ کیوں ہمیں غریبوں کی خدمت کرنے کی توفیق دے کر اجر کمانے کا موقع دے۔ اور اگر اللہ ہی ہمیں نیکی کرنے کے مواقعوں سے محروم کردے تو کون ہماری مدد کرسکتا ھےَ؟
یہ ہی وقت ہے کہ ہم چوپائیوں سےانسان بن جائیں۔ یہ ہی وقت ہے کہ ہم اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکر صرف یہ ہی کوشش ہماری دنیا اور آخرت سنوار سکتی ہے۔
یہ ہی وقت ہے کہ ہم محمد(ص) و آل محمد(ع) کے فرمانبردار ہوجائیں کیونکہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہیں رسول(ص) قرآن کے ساتھ چھوڑ کر گئے تھے۔ کیوں رسول(ص) کے بتائے ہوئے رستے سے دور ہوکر اور لوگوں کو ان کا سا درجہ دیں؟
آگ نقصان دیگی اگر اسکے قریب جایا جائے۔ یہ ہی بات سچ ھے اور حق ھے۔ اگر کسی کی نظر میں آگ ٹھنڈک دیتی ہے تو اسے حق نہیں بدلے گا بلکہ اس سے اس انسان کو ہی نقصان پھنچے گا۔ اسی لئے ہمارے لئے بہتر ہے کہ اپنے عقائد کو حق کے ساتھ جوڑ لیں۔ لیکن یہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے پروردگار سے دعا کریں کہ وہ ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق عطا کرے۔
دین کی سمجھ اور رسول(ص) کی پیروی علی(ع) کی پیروی کے بغیر نا مکمل ھے۔ ایک روایت کے مطابق ام سلمہ بیان فرماتی ہیں
علی حق اور
قرآن کے ساتھ ہے، اور قرآن اور حق علی کے ساتھ ہیں، اور یہ آپس میں جدا نہیں
کیئے جا سکتے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر آیئں۔
یہ حدیث
کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
al-Bahrani's Ghâyat al-marâm wa-hujjat
al-hisâm, page 539
البحرانی کے مطابق یہ ہی حیث سُنّی روایات میں پندرہ
مختلف طرح اور شیعہ روایات میں گیارہ مختلف طرح سے محفوظ کی گئ ہے۔ کچھ احادیث میں
یہ جُملہ بھی شامل ھے۔
اور جہاں
بھی علی مُڑتا ہے حق اس کے ساتھ مُڑ جاتا ہے۔
یہ حدیث
کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir al-Kabir, by Fakhr al-Din al-Razi,
Commentary of "al-Bismillah"
تو بھر کیوں محمد(ص) سے، علی(ع) سے اور اہل بیعت سے اپنا منہ موڑا جائے۔ ان لوگون سے جن کو رسول(ص) مباہلہ میں سچوں میں شمار کر کے لے گئے تھے, جن کے لئے قرآن نے فرمایا ھے
اے ایمان
والوں! اللّہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو
جاو۔
Quran [9:119]
انہیں سچے لوگوں کے ساتھ ہونا محمد(ص) کی فرمانبرداری
ھے۔
آپ بےشک مسلمان ہونگے، بےشک نمازی ہونگے، بےشک امام حسین(ع) کی یاد میں مجالس کا انعقاد کراتے ہونگے، مگر اس بات کا خیال رکھیے گا کہ جب روز آخر محمد(ص) کے نافرمانوں کی فہرست تیار کی جائے تو آپکا نام اسمیں نہ ہو۔ اور آپ محمد(ص) کی نافرمانی سے کیسے بچ سکتے ہیں یہ آپ خد سب سے بہتر جانتے ہونگے، فقظ یہ کہ آپ بچنا چاہتے ہوں۔ ہماری ساری امت بھگت رہی ہے کیونکہ ہم کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح محمد(ص) کے نافرمان ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم معلوم کریں کہ غلطی کہاں ہو رہی ھے۔
اپنے اردگرد دیکھیں، کیا نظر آتا ہے? لوگ جن پر اللہ کا کرم ہے یا لوگ جو پریشان یہاں وہاں بھٹک ریے ہیں? کیا اللہ تعالٰی ہمیں بھول گئے ہیں یا ہم انہیں بھول گئے ہیں؟ بہت وقت گزر گیا ہے، اب ہمیں اپنی گردنوں کو چوپائیوں کی گردن نہیں بنانا چاھئے، کیوںکر ان کی گردنیں کٹنے کا لئیے ھوتیں ھیں۔ اپنی گردن کو انسان کی گردن بناو، کیوںکہ انسان کی گردن وہیں جھکتی ھے جہاں اللہ کی رضا ہو۔
[ Back to top ]
Feel free to
email your comments/replies to this article at
es_ammar@hotmail.com or post a message
at
our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article,
visit Here.