Skip to: Site menu | Main content

About

We believe that a true and comprehensive understanding of Islam would not be possible without careful recognition of the Prophetic Tradition and the Prophet's Household. And Allah is the Source of Strength.
 

احدیث: کیا شیعہ اقوال رسول(ص) جھٹلاتے ہیں؟

AboutMail Box Letter Relevant to this Topic
 Letter 09
: Ahadith and Prophet's character Assassination, from Shaq al Sadr to the Satanic Verses


AboutThe following document is an urdu version of the article, "Ahadith; Do Shia Deny Prophetic Sayings". Any typographical errors in urdu should be ignored.
Translation contributed by: Anica Shah [anicashah@hotmail.com]

 

 احادیث روایات ہیں جو رسول اللہ (ص) کے افعال اور اقوال سے منسلک کی گئی ہیں۔ بلا شبہ نبی کریم (ص) کی کہی گئی ہر بات بے انتہا اہم ہے اور قرآن، رسول اللہ (ص) کی دی گئی تعلیم اور انکے کئے گئے عمل اور دی گئی وضاحتوں کے بنا نہیں سمجھا جا سکتا۔

  

کیونکر اگر صرف اکیلا قرآن ہی کافی ہوتا (جیسا کے چند لوگوں کا خیال ہے) تو پھر نبی (ص) کو دنیا میں آکر قرآن کا مطلب سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر قران اپنی تشریح خود کر سکتا ہے تو پھر کیوں آج میں اسلام کو اتنے بے شمار فقہوں کی صورت میں دیکھتا ہوں جب کہ ہر فقہ اسی ایک قرآن سے شرعی مسئلوں کے حل نکالنے کا دعوٰی کرتا ہے پھر کیوں الگ الگ نتائج تک پہنچتا ہے۔

 

لہٰذا رسول اللہ (ص) کے اقوال اور افعال اسلام میں اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی قرآن رکھتا ہے۔ کیونکہ قرآن اور رسول اللہ (ص) کے عمل، دونوں ہی وحی ہیں۔ 
 

قسم ہے روشن ستارے (محمد) کی کہ جب وہ (چشم ذدن میں شب میراج اوپر جاکر ) نیچے اترا۔ تمھیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمھیں اپنی فیض صحبت سے صحابی بنانے والے رسول) نہ (کبھی) راہ بھولے نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ان کا ارشاد سراسر وحی ہوتا ہے جو انھیں کی جاتی ہے۔  ان کو بڑی قوتّوں والے (رب) نے (براہ راست) علم کامل) سے نوازا۔  
Quran [53:1-5]


شیعہ احادیث نبوی کو جھٹلاتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ احادیث اسلام کو سمجھنے کے لئے بے انتہا ضروری ہیں۔ مگر مسئلہ یہ جاننا ہے کہ کوئی حدیث واقعی رسول اللہ (ص) کا ہی ارشاد ہے کہ ان (ص) سے زبردستی منسوب کیا گیا ہے۔

 

 رسول(ص) کا قول و حکم سر آنکھوں پر، پر پہلے یہ ثابت تو ہو جاے کہ قول واقعے ہی رسول(ص) کا ہو۔

 

کونسی حدیث مستند تسلیم کرنی چاہیے اور کونسی نہیں، یاس میں ہر ایک کا اپنا نزریہ ہو سکتا ہے۔۔  ہر وہ حدیث جالی ہے جو ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کے بھی خلاف جائے :

  1. ۔ قرآن

  2. ۔ تاریخ

  3. ۔ عقل


 قرآن ہمیشہ، کسی بھی چیز کو جانچنے کا بنیادی معیار رہے گا۔ اس کے حق ہونے پر کبھی شق نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰزا ہر وہ حدیث جو قرآن کی نفی کرے، اسے ردّ کر دینا چاہیے۔

 

حدیث اور تاریخ میں بہت بڑا فرق ہے۔ آپ شاید یہ جاننا چاہیں کہ میں حدیث سے زیادہ تاریخ کو کیوں اہمیت دیتا ہوں۔ اس کی ایک  وجہ ہے۔

 

میں نے اپنے بھائی کو جنگ عظیم اول کے بارے میں اپنی رائے بتائی۔ اس گفتگو کے دوران وہ اور میں اکیلے تھے۔ آپ کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اول تو اس وقت کوئی ٹیپ ریکورڈر نہیں تھے، اسلئے میرا بھائی میرے الفاظ کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ دوسرا، کہ میرا بھائی ایک جانا مانا جھوٹا ہے، جس کی وجہ سے اس کی کی ہوئی ہر بات   کی تحقیق ہوگی۔ تیسرا، اگر میرا بھائی کسی سے نفرت کرتا ہے، تو اس انسان کے لئے میری کی گئی کوئی بات میرے بھائی کی زبانی یقینن مشتبہ ہو گی۔ کیونکہ امکان یہ ہے کہ میرے بھائی کے اس شخص کے لئے ذاتی احساسات درمیان میں آ جائیں گے۔  تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میری، چار دیواری میں کی گئی کوئی بھی بات، محدود لوگ سنیں گے۔ اس لئے میرا بیان ان چند لوگوں کی زبانی انکی طبیعت، کردار اور تعصبات پر منحصر ہوگا۔

 

جہاں تک تاریخ کا سوال ہے، تو تاریخی اعتبار سے کسی واقع کے واقع ہونے پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ میرے اور میرے بھائی کا بھرے بازار میں جھگڑا ہوا۔ ہزاروں لوگوں نے دیکھا، پولیس آئی وغیرہ وغیرہ۔ کوئی اس واقع کے ہونے پر شبہ نہیں کر سکتا۔ پر ہاں وہاں موجود ہر ایک شخص کا، اس واقعہ کا تجزیہ کرنے کا طریقہ الگ ہوگا۔ کچھ کے نزدیک میں درست ہونگا اور وہ میرا ساتھ دینگے۔ مگر کچھ کے نزدیک میرا بھائی درست ہوگا ور وہ اسکا ساتھ دینگے۔ لہٰذا تاریخ کسی شخص کے بیان سے زیادہ پائیدار ہوگی۔

 

اسی طرح عقل بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں کیونکہ شاید ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم میں ہر وہ بات جس پر اسلام کا ٹھپّہ لگا ہوا ہو قبول کرنے کی عادت ہے۔ کیا ہوتا اگر ہم مسلمان گھرانے میں پیدا نہ ہوتے؟ قرآن ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہر انسان کا صحیح اور غلط جانچنے کا اپنا معیار ہے جسے عقل کہتے ہیں۔ پس سارا کمال اس کو استعمال کرنے کا ہے اور استعمال  بھی وہ جو ایمانداری سے ہو۔ بے شک، مسلمان ہونے کے ناطے قرآن کے مقابلے میں ہمیں اپنی عقل کے ہتھیار کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر کسی حدیث کے جعلی ہونے کا خدشہ بلکل موجود ہے۔ سو اگر کوئی حدیث ہماری عقل کو مطمعین نہیں کرتی تو اسے  ردّ کر دینا چاہیے۔

 

ہر بالغ دماغ نے اپنے ذہن میں رسول اللہ (ص) کی تصویر بنائی ہے۔ یہ تصویر قرآن، عقل اور دین کی سمجھ پر منحصر کرتی ہے۔ اس تصویر کی تشکیل کے لئے چند لوگوں کے پاس وجوہات ہیں اور چند نے یونہی بنا رکھی ہے۔ مثال کے طور پر میرا ماننا ہے کہ محمد (ص) اللہ کے اعلیٰ ظرف اور اعلی شان پیغمبر تھے۔ وہ رحم دل اور انصاف پسند تھے۔ ان سے نہ کوئی گناہ ہو سکتا تھا، نہ ہی غلطی ہو سکتی تھی، وہ معصوم تھے۔ وہ بہادر تھے اور نہایت ہی بلنر کردار کے مالک تھے۔ ان کا کیا ہوا ہر کام، ہر فعل، قرآن اور اللہ کے حکم اور ہدایت کے مطابق تھا۔ "محمد (ص)، قرآن کی روشنی میں" پڑھئے، یہ جاننے کے لئے کہ میں ان (ص) کے لئے کیا اور کیوں مانتا ہوں۔  
 

جابر بن عبد اللہ سے روایت کی جاتی ہے کہ: رسول (ص) ازّر (کمر پر باندھنے والا کپڑا) پہنے ہوئے، مکّہ کے لوگوں کے ساتھ خانہء کعبہ کی تعمیر کے لئے پتھر اٹھا رہے تھے، ان (ص) کے چچا ال عباس نے ان (ص) سے کہا، "او میرے بھتیجے! (بہتر ہوگا کہ) تم اپنا ازّر اتار کر اپنے کاندھوں پر پتھرووں کے نیچے رکھدو"۔ تو انھوں (ص) نے اپنا ازّر اتار کر کاندھوں پر رکھ لیا، لیکن ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش ہوگئے اور اس کے بعد کبھی بھی لوگوں کے سامنے برہنہ نہیں دکھے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
 Sahih Bukhari, Volume 1, Book 8, Hadith 360


 میں ایسی حدیث کو رسول اللہ (ص) کی تذلیل سمجھتا ہوں۔ کیونکہ کوئی بھی باشعور آدمی، لوگوں کے سامنے، اپنی پتلون نہیں اتار سکتا۔

 

کیا اپ کے والد اپنے افس میں سب کے سامنے امنی پتلون اتار سکتے ہیں؟ بلا شبہ ایسی احدیث رسول(ص) کی توہین ہیں اور ان کا رتبہ کم کرنے کی سازش ہیں۔

 

چنانچہ ہر وہ حدیث جو رسول اللہ (ص) کی اور اہل البیعت کی تذلیل کرے (اس تصویر کی تذلیل کرے جو میرے ذہن میں ان کے لئے ہے)، اسے میں ضعیف اور جعلی سمجھونگا۔ مگر، اگر یہ تصویر صرف چند مخصوص احادیث کی بنا پر بنائی جائے، تو یہ غلط ہے۔

 

مثال کے طور پر اگر میں کہوں کہ شخص "ا" معصوم ہے اور  "ا" سے محبت کرنا دین کا اہم جز  ہے۔ اور میری یہ رائے کسی کتاب میں موجود کسی حدیث کی بنا پر ہے۔ جبکہ شخص "ا" تاریخ کے حساب سے بہت طالم انسان گزرا ہے، تو مجھے شخص "ا" کی معصومیت پر شبہ ہونا شروع ہو جائے گا۔

 

سنی دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکے شیعاء کچھ اصحاب کو نا پسند کرتے ہیں اور انکو باقیوں کی سی عزت نہیں دیتے۔ اس لئے وہ ایسی بے شمار احادیث کی نفی کرتے ہیں کو ان لوگوں کا مقام بڑھاتی ہیں۔۔ 
 

عقباہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ (ص) ، اللہ انھیں اور ان کی آل پر رحمت نازل کرے اور سکون بخشے، نے فرمایا، "اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

The History of the Khalifahs by Jalal ad-Din as-Suyuti


 غور طلب بات یہ ہے کہ یہ حدیث نہ ہی میری عقل کو مطمعین کرتی ہے نہ ہی تاریخ سے موافقت رکھتی ہے۔

 

 نبی اپنی پیدائش کے وقت سے ہی نبی اور معصوم ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے، عمر بت پرست اور شرابی تھے۔  کیا نبی اپنی نبوّت کا اعلان کرنے سے پہلے اس طرح کا قردار پیش کرتے ہیں؟  اسی طرح اگر محمد (ص) اللہ کے آخری نبی تھے تو پھر کسی اور نبی کے آنے کی بات کرنا بے مقصد ہے۔ سنی شیعوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ علی ابن ابی طالب کے مناقبات کچھ زیادہ ہی بڑھا دیتے ہیں۔ پھر تو اس حدیث کو ہی کلمہ کفر ماننا چاھئیے کیونکہ یہ نبوّت جیسے اعلٰی مرطبے کی ہی توہیں کرتی ہے۔ 

 

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ خود سنیوں کے مطابق عمر نے دین میں بہت سی بدتّیں کیں،   حدیبیہ پر رسول اللہ (ص) کی نبوّت پر شک کیا، قلم اور کاغظ والے واقع میں گناہگار تھا، احد اور حنین میں بھاگ گئے تھے اور فدّک پر فاطمہ (ع) کا حق مارنے میں ابو بکر کے شریک تھا۔ یہ تاریخی حقائق مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا یہ الفاظ واقعی اللہ کے نبی (ص) کے ہو سکتے ہیں، جو کہ صرف وہ ہی بولتے ہیں جو انکو اللہ حکم کرتے ہیں۔
 

ابو قطادا بیان کرتے ہیں: غزوہ حنین کے دن۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مسلمان (رسول اللہ (ص) اور چند صحابیوں کے علاوہ) بھاگنے لگے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگنے لگا۔ اچانک میرا ان لوگوں کے درمیان، عمر بن خطاب سے ٹکراؤ ہوا تو میں نے ان سے پوچھا، "لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟" انھوں نے جواب دیا، "یہ اللہ کا حکم ہے"۔ پھر لوگ  نبی (ص) کے واپس پہنچے (دشمن کو شکست دینے کے بعد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

Sahih Bukhari, Volume 5, Book 59, Hadith 611

ابو ویل نے بیان کیا ہے: ہم سفین میں تھے اور سہل بن ہنیف اٹھے اور کہا، "اے لوگو اپنے آپ کو کوسو! ہم حدیبیا کے دن رسول اللہ (ص) کے ساتھ تھے، اور اگر ہمیں لڑنے کے لئے آواز دی جاتی تو ہم لڑتے۔ لیکن عمر بن خطاب آئے اور کہنے لگے، "اے اللہ کے نبی (ص) کیا ہم صحیح اور ہمارا دشمن غلط نہیں ہے" اللہ کے نبی (ص) نے فرمایا، "ہاں"۔ عمر نے کہا، "کیا ہمارے مارے گئے لوگ جنّت میں اور ان کے جہنم میں نہیں ہیں؟"، انھوں (ص) نے کہا، "ہاں ہیں" تو عمر نے کہا کہ، "پھر ہم کیوں اپنے دین کے معملے میں  ان کی شرائط کو تسلیم کریں؟ کیا ہم اللہ کے، ہمارے اور ان کے درمیان، فیصلہ کرنے سے پہلے ہی لوٹ جایئں?" ۔ اللہ کے نبی (ص) نے فرمایا، "او ابن الخطاب، میں اللہ کا نبی ہوں اور اللہ مجھے کبھی بھی رسوا نہین ہونے دیگا"۔ پھر عمر ابو بکر کے پاس گئے اور انھیں بھی وہ ہی کہا جو رسول(ص) سے کہا تھا۔ اس پر ابو بکر نے عمر سے کہا۔ "وہ (ص) اللہ کے نبی ہیں اور اللہ انھیں کبھی رسوا نہیں کریگا"۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور رسول اللہ (ص) نے عمر کے سامنے پڑھی۔ اس پر عمر نے دریافت کیا، "اے اللہ کے نبی! کیا یہ (صلح حدیبیہ) ہمارے فتح ہے؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا، "ہاں"۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

Sahih Bukhari, Volume 4, Book 53, Hadith 406


 اور سنیوں کے مطابق ابو بکر عمر سے بہتر تھے۔  
 

محمد بن ال-حنفیا نے بیان کیا ہے: میں نے اپنے والد (علی بن ابی طالب) سے دریافت کیا کہ، "اللہ کے نبی (ص) کے بعد بہترین لوگ کون ہیں؟" انھوں نے جواب دیا، "ابو بکر"۔ میں نے پوچھا، "ان کے بعد؟" انھوں نے جواب دیا، "عمر"۔ مچھے خوف تھا کہ اسکے بعد وہ کہیں گے عثمان، اس لئے میں نے پوچھا، "ان کے بعد، آپ؟" تو انھوں نے کہا، "میں تو ایک معمولی انسان ہوں"۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔
 
Sahih Bukhari, Volume 5, Book 57, Hadith 20
 


 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی قوم کے لوگ اس قوم کے نبی سے زیادہ اچھے ہوں۔  اگر عمر رسول اللہ (ص) جیسی خصوصیات رکھتے تھے (نعوزباللہ) تو پھر تو ابو بکر کو زیادہ بڑا نبی ہونا چاھئے تھا۔

 

اور تو اور یہ نبوّت کے متعلق حدیث عقباہ ابن امر نے بیان کی ہے، جو کہ  معاویہ کا نہایت وفادار ساتھی اور علی بن ابو طالب (ع) کا دشمن تھا۔ اب جعل سازی سمچھ آتی ہے۔ نہیں؟

 

اسی طرح احادیث ملتی ہیں جو تقریباً تمام صحابیوں کی تعریف کرتی ہیں اور ان سے جنت کا وعدہ کرتی ہیں۔ مگر تاریخ کے مطابق صحابہ نے ایک دوسرے سے جنگیں کیں اور نتیجتاً ایک دوسرے کو ختم کیا۔ اب یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی حق پر کیسے ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی جنت میں کیسے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم ایسی احادیث کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو یا تو قرآن کے خلاف جاتی ہو یا تاریخ اور ہماری عقل کے۔ 

 

مجھے امید ہے کہ لوگ مسجدوں اور مدرسوں سے کچھ بھی سننے کے بعد ان سنی ہوئی باتوں کی تصدیق ضرور کریں گے کیونکہ یہ جگہیں اکثر انتہا پسندوں اور کم تعلیم یافتہ لوگ چلاتے ہیں۔

 

اب تلخ حقائق کی طرف آتے ہیں۔ سوامی دیانند، ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جسے ایک مسلمان نے "رنگیلا رسول"، رسول اللہ (ص) کے خلاف ایک غلیض کتاب لکھنے پر قتل کر دیا تھا۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ دیانند کی کتاب میں مسلمانوں کی ہی کتب سے لئے گئے ٹکڑے تھے۔ کچھ اس کے مدعے کی حمایت کرتے ہوئے کچھ نہیں۔

 

احادیث کی کتب میں ایسی بے شمار روایات ہیں جن میں عائشہ اپنی ازدواجی زندگی کا تزکرہ کرتی ہیں۔ اور یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح رسول اللہ (ص) انھیں اپنی باقی تمام اہلیا سے زیادہ پیار کرتے تھے، کیونکہ وہ واحد تھیں جنہیں رسول اللہ (ص) کے علاوہ کسی نے نہیں چھوا تھا۔ ایسے دعوے رسول اللہ (ص) کا مقام کمزور کرتے ہیں کیونکہ انھیں حوس نہیں ہو سکتی۔ 

 

میں اپنے نبی (ص) کے احترام میں یہاں وہ آحادیث  بیان نہیں کر رہا جو ان (ص) کی ازدواجی زندگی عیاں کرتی ہیں۔ اگر آپ ایسی احادیث کو کسی بھی غیر مسلم کو دکھائیں گے تو وہ یقینن رسول اللہ (ص) کو "رنگیلا رسول" کا ہی لقب دیگا۔ ہم نے دیانند کو مار دیا مگر ان کتابوں کا کیا جو ہمارے نبی (ص) کی توہین کرتی ہیں۔   اگر سنی صحابیوں کی عظمتیں بیان کرنے سے فارغ ہو گئے ہوں تو انہیں اب رسول اللہ (ص) اور انکے اہل البیعت کے خلاف ایسی سازشوں کو روکنے کے بارے سوچنا چاہئے.

 

یہ ذہن نشین کر لیں کہ سیعہ عقیدے کے حساب سے، ایسی ہر کتاب میں جسے کسی انسان نے لکھا ہو غلطی کی گنجائش ہے۔ اور اسی لئے سنیوں کی طرح وہ کسی بھی کتاب کو "صحیح" یا مکمل طور پر مستند نہیں مانتے۔ جبکہ سنیوں کے نزدیک چھ کتابوں کو، جن میں ہمارے جیسے انسانوں نے احادیث درج کی ہیں، "صحاح" کہا جاتا ہے (مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ شیعوں کے مطابق، ایسی کتاب جو مکمل پاک اور غلطی سے عاری ہے، وہ اللہ کی کتاب، قرآن ہے۔ ان کتابوں میں پائی جانے والی کچھ احادیث کو صحیح مانا جا سکتا ہے مگر ان میں موجود بہت سی احادیث کمزور یا ضعیف بھی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی مستند حدیث اسلام کے خلاف اور عقل کے خلاف نہیں جا سکتی۔
 

عائشہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ (ص) میرے حیض کے دنوں میں، میری گود میں لیٹ کر قرآن پڑھا کرتے تھے۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

Sahih Bukhari, Volume 1, Book 6, hadith 296 

قطادا نے بیان کیا ہے کہ انس بن مالک نے بتایا، "رسول اللہ (ص) اپنی تمام اہلیا کے پاس ایک چکر میں جاتے تھے، پورے دن اور رات میں اور وہ گیارہ تھیں"۔ میں نے انس سے پوچھا، "کیا رسول اللہ (ص) میں اتنی طاقت تھی؟"۔ انس نے جواب دیا، " ہم کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (ص) کو تیس آدمیوں جتنی طاقت دی گئی تھی"۔ اور سائد نے قطادا کی طرف سے بتایا ہے کہ انس نے انھیں صرف نو بیویوں کا بتایا تھا، گیارہ نہیں۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

 Sahih Bukhari, Volume 1, Book 5, hadith 268


 
رسول اللہ (ص) انسان ہی تھے مگر ان سے بڑا عادل کوئی انسان نہیں ہوسکتا۔ وہ (ص) اپنی ساری بیویوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آتے تھے۔ وہ (ص) ایک دن ایک کے ساتھ گزارتے تھے اور ایک رات میں ایک بیوی کے پاس قیام کرتے تھے۔ وہ (ص) عشاء کے بعد جلدی سو جانا پسند کرتے تھے اور آدھی رات کو تہجد کے لئے اٹھ جاتے تھے اور پھر مختلف عبادات میں مصروف ہو جاتے تھے۔ یہ ان (ص) کا معمول تھا۔
 

اور تو (محمد) بڑے اخلاق کا مالک ہے۔
Quran [68:4]

اور کچھ رات اس کے ساتھ جاگ، اور یہ زیادہ (اے رسول) تیرے لئے ہے۔ ممکن ہے کہ تیرا رب تجھے قابل تعریف مقام پر کھڑا کر دے۔
Quran [17:19]


 
ہم، شیعہ ایسی نا پاک روایات کو ردّ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ (ص) کی عزت کی حفاظت کرنا صحیح البخاری کی عزت محفوظ کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ 

 

چنانچہ ہم ایسی باتوں کو محض کہانیاں سمجھتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ سراسر غلط ہے کہ رسول اللہ (ص) اپنی تمام بیویوں (جو کہ گیارہ تھیں) کے پاس ایک ہی رات میں جایا کرتے تھے۔ یہ بھی سراسر غلط ہے کہ رسول اللہ (ص) کا اپنی بیویوں کو، انکی ناپاکی کی حالت میں پیار کرنے کا دل چاہتا ہوگا۔ کیونکہ ان (ص) سے زیادہ خود پر ضبط کسی کو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ بھی سراسر غلط ہے کہ رسول (ص) نے اپنی کسی بیوی کی گود میں قرآن پڑھا ہوگا، جبکہ وہ ناپاکی کی حالت میں ہوں۔

 

ایسی احادیث رسول اللہ (ص) کی بزرگی اور پاکیزگی کے خلاف ہیں۔  جب کوئی غیر مسلم یہی احادیث بیان کرکے ہمارے نبی (ص) کی توہین کرتا ہے تو ہماری گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ روز آخرت پر کم سے کم ہم شیعہ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے محمد (ص) کی معصومیت کی حفاظت کی۔
 

ابو حریرا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ (ص) شام کے وقت کی کوئی نماز ادا کر رہے تھے ( "میرا خیال ہے وہ عصر کی نماز تھی") اور انھوں نے نماز دو رکعت پڑھ کر ختم کر دی۔ پھر وہ اپنا ہاتھ ایک لکڑی کے ٹکڑے پر رکھ کر (جو کہ مسجد کے سامنے پڑا تھا) کھڑے ہوگئے۔ ابو بکر اور عمر وہاں موجود لوگوں میں سے تھے، مگر انھوں نے رسول اللہ (ص) کے  احترام میں کچھ نہ بولا، اور وہ لوگ جو جلدی میں تھے باہر چلے گئے۔ ایک شخص جسے دھل یادین کہا جاتا تھا، نے پوچھا، "کیا نماز چھوٹی کر دی گئی ہے یا آپ (ص) بھول گئے ہیں؟" رسول اللہ (ص) نے فرمایا، "نہ ہی میں بھولا ہوں نہ ہی نماز چھوٹی کر دی گئی ہے"۔ اس نے کہا کہ "یقینن آپ (ص) بھول گئے ہیں"۔ تو رسول اللہ (ص) نے دو اور رکعت نماز ادا کی۔ پہلے تشہم ادا کیا پھر تکبیر کہی اور پھر "سہو" کا سجدہ ادا کیا، اسی طرح جیسے عام سجدہ ادا کرتے ہیں یا شاید اس سے کچھ لمبا پھر اپنا سر اٹھایا، تکبیر کہی اور پھر سجدہ کیا، اسی طرح جیسے عام سجدہ ادا کرتے ہیں یا شاید اس سے کچھ لمبا، پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔

یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ہے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ہے۔

Sahih Bukhari Volume 2, Book 22, Number 321


کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی (ص) اپنی نماز بھول سکتے ہیں جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگوں کو یاد ہو؟

 

سنی فقہ دو شرائط پر کسی راوی سے حدیث قبول کرتا ہے۔:

  1. ۔ عدل: ایک مسلمان کو عدل کے تقاضے دئے گئے ہیں اس پر پورا اترتا ہو، بالغ ہو، سمجھدار ہو، بد ثلن نہ ہو اور کسی بھی قسم کے وحشی طور طریقے پر نہ چلتا ہو۔

  2. ۔ چستی: اس سے مراد ہے حدیث کو اس کے عین الفاظ میں یاد کرنے کی اور اسی طرح بیان کرنے کی صلاحیت ہے۔

 

اب یہ تو بہت ہی اچھی شرائط لگتی ہیں جو اگر پوری ہو رہی ہوں تو کسی بھی حدیث کو مستند مانا جا سکتا ہے۔ لیکن کچھ چونکا دینے والے حقائق بھی ہیں

 

  1. ۔ عمر ابن سعد کی بیان کردہ احادیث بخاری کا حصہ ہیں۔ یہ کوئی 800 احادیث کے بیان کرنے والوں کی زنجیر کا حصہ ہے۔ یہ شخص بذات خود یزیدی لشکر کا سپہ سالار تھا، جس نے امام حسین (ع) اور ان کے اہلہ خانہ اور ساتھیوں کو شہید کیا۔

  2. ۔ بصر ابن ارتا، جسے معاویہ خون ریزی کرنے کے لئے بھیجا کرتا تھا۔ یہ وہ انسان ہے جو صحیح بخاری میں موجود چودہ فیصد احادیث کے بیان کرنے والوں کی زیجیر کا حصہ ہیے۔

  3. ۔ امر ابن سعید ابن آس، مدینہ کا ایک سر براہ اور بنی امیہ سے تعلق رکھنے والا جسکو معاویہ اور یزید نے مقرر کیا تھا اور "ال اشدقّو" کہلایا جاتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نے عماوی حکومت بچانے کے لئے کتنے ظلم ڈھائے تھے۔ اس کی امام علی (ع) سے دشمنی اس کی کم بختی/ نیچ پن ثابت کرتی ہے۔   

  4. ۔ عمران ابن حتّام، یہ وہ ہے جسنے امام علی (ع)کے قاتل کی تعریف میں ایک تفصیلی نظم لکھی تھی۔ یہ بھی احادیث میں راوی ہیے۔

  5. ۔ جناب عائشہ، جو امہات المومنین میں سے ہیں، نے بخاری کی  اٹھارہ فیصد احادیث اور مسلم کی تیرہ فیصد احادیث بیان کی ہیں۔ اور چونکہ انھوں نے امام علی (ع) کے خلاف جنگ کی تھی اس لئے انھیں منصف نہیں کہہ سکتے۔

  6. ۔ اور تو اور معاویہ بن ابو سفیان نے بھی صحاح ستّہ کو مکمل کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس کی امام علی (ع) کے لئے نفرت ان (ع) سے لڑی گئی جنگوں سے واضح ہے۔  

 ["Al-Hadis" Volume 1, English translation/commentary of Mishkat Al-Masabih by Fazal-ul-Karim]


 احادیث کی یہ چھ کی چھ کتابیں عباسی دور خلافت میں لکھی گئی تھیں اور اس کے باوجود ان میں پچاس حدیثیں بھیں احل البیعت سے نہیں لی گئی۔  اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کس قدر ضعیف ہونگی۔

 

رسول اللہ (ص) نے ہمیں ہر اچھی چیز کو سرہانے اور اپنانے کا حکم دیا ہے، چاہے کہیں سے بھی ملے۔ لہٰزا ہم صحاح ستاہ کو مکمل طور پر نہیں جھٹلاتے۔ مسلم اور بخاری نے یقیناً تھک اور خالص محنت سے رسول خدا (ص) کی اقوال جمع کیں ہونگی۔ مگر اس بات کو بھی نہیں فراموش کیا جا سکتا کہ یہ کتب عباسی دور خلافت سے گزری ہیں اور بنی امیہ، فاطمی اور عباسی نے روایات میں ردّو بدل کیں تاکہ اپنی حکومتوں کو مظبوط کر سکیں۔  بالکل سی-این-این اور بی-بی-سی کی طرح جو کہ ہیں تو ہزاروں لوگوں لے لئے دنیا بھر کی خبریں حاصل کرنے کے بنیادی ذرائع لیکن چلاتی انھیں اسرائیلی تنظیم اے-پیک ہے۔ اور یہ اہی خبریں جاری کرتے ہیں جو کہ امریکا کے مفاد میں ہوتی ہے۔

  

رسول اللہ (ص) ہمارے لئے پہترین نمونہء عمل ہیں۔ کوئی بھی ایسا کام جو میرے جیسا گناہگار اپنے لئے نا مہذب سمجھے، وہ وہ (ص) کریں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو دانائی ان (ص) کے پاس تھی، اسکا تصور بھی میرے لئے ممکن نہیں۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ وہ (ص) ایسے دس لوگوں سے جنّت کا وعدہ کر سکتے ہیں جو ان کے بعد ایک دوسرے سے ہی لڑ پڑیں گے۔ اسی طرح جس انسان نے دنیا تک نماز پہنچائی، وہ خود نماز بھول جائیں، یہ بھی نا ممکن ہے۔ لہٰذا میری ہر اس انسان سے جو رسول اللہ (ص) سے محبت کرتا ہے یہ درخواست ہے کہ جب بھی کسی مسجد یا مدرسے سے کوئی حدیث سنیں تو اس کی قرآن، تاریخ اور عقل کی مدد سے تصدیق ضرور کریں۔ کہیں ان جگہوں سے سنی گئی ہر بات پر اندھا اعتبار آپ کو بھی گستاخ رسول نا بنا دے۔ 

 

 

Feel free to email your comments/replies to this article at es_ammar@hotmail.com or post a message at our Forum, no registration Required.
To view comments/suggestions for this article, visit Here.